• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک پرانا لطیفہ ۔جاگیردارانہ نظام میں اگر آپ کے پاس دو گائیں ہوں توجاگیردار ان کے دودھ میں سے حصہ لے جائے گا،کمیونزم میں اگر آپ کے پاس دو گا ئیں ہیں تو انہیں پالنا آپ کا فرض مگر ان کے دودھ پر حکومت کا حق ہوگا،جمہوریت میں اگر آپ کے پاس دو گائیں ہوں تو آپ کا ہمسایہ فیصلہ کرے گا کہ دودھ کون لے گاجبکہ فاشزم ایک ایسا نظام ہے جس میں اگر آپ کے پاس دو گائیں ہیں تو حکومت دونوں کو اپنی تحویل میں لے گی ،آپ کو ان کی دیکھ بھال پر مامور کرے گی اور بعد ازاں ان کا دودھ آپ ہی کو فروخت کر دیا جائے گا!
یہ لطیفہ مجھے فاشزم سے یاد آیا ،فاشزم کی یاد ہٹلر کی وجہ سے آئی،ہٹلر جرمنی کی وجہ سے یاد آیا اور جرمنی کی یاد پاکستان کے موجودہ حالات کی وجہ سے آئی۔بظاہر تو پاکستان کے حالات کا تعلق جرمنی سے جوڑنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی میراثی گاؤں کے چوہدری کی بیٹی کا رشتہ مانگ کر تعلق جوڑنے کی کوشش کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ 1919ء کے بعد جرمنی کے حالات پاکستان سے بھی بد تر تھے۔جنگ کی ہزیمت اٹھانے کے بعد جرمن قوم شدید مایوسی کا شکار تھی،بادشاہت ختم ہو چکی تھی ،فاتح اقوام نے بھاری تاوان عائد کر رکھا تھا،نوزائیدہ جمہوریت میں نا اہل سیاست دان ایک دوسرے سے لڑنے میں مگن تھے ،کرپشن عام تھی،جمہوریت کے خلاف ہر طرح کے دلائل دئیے جاتے تھے اور مہنگائی کا یہ عالم تھا کہ1923میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت 4,210,500,000,000 جرمن مارک کے برابر تھی۔حکومت حد درجے کمزور تھی اور سوسائٹی کے طاقتور طبقات نے اپنی اپنی فورس اور نجی ملیشیا قائم کر رکھی تھی ،پہلی جنگ عظیم کے ہیرو برلن کی سڑکوں پر بھیک مانگتے پھرتے تھے اوروہ جرمن قوم جس کا دماغ نطشے اور شوپنہار نے خراب کر رکھا تھا اور جو اپنے تئیں دنیاکی ”سپر ریس“ تھی ،اقوام عالم میں ذلت کا شکارہو چکی تھی۔ ان حالات میں جرمن قوم کسی ایسے ڈنڈا بردار کا انتظار کر رہی تھی جو ان سب کو سیدھا کر دے ،کوئی سپر مین،کوئی فوق البشر ،کوئی مرد مومن،کوئی مسیحا ،کوئی بیباک لیڈر ،کوئی عظیم ترین انسان جو خطاؤں سے پاک ہو !ایسے میں ایڈولف ہٹلر پیدا ہوا۔
ہٹلر جنگ کا ہیرو تھا،سازشی نظریات پھیلانے میں یدطولیٰ رکھتا تھااور پروپیگنڈہ تکنیک کا بادشاہ تھا۔جرمن قوم جس دور سے گذر رہی تھی وہ ہٹلر جیسے شخص کے لئے آئیڈیل ثابت ہوا ،جس مسیحا کا قوم کو انتظار تھاہٹلر نے باور کرواد یا کہ وہ مسیحا وہی ہے ۔1929میں جب امریکی سٹاک مارکیٹ کریش ہوئی تو جرمنی اس سے بری طرح متاثر ہوا، لاکھوں لوگوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے اورکئی بنک ڈیفالٹ کر گئے ۔ہٹلر نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں سے وعدہ کیا کہ وہ معیشت کو بحال کرے گا، لوگوں کو نوکریاں دے گا اور پہلی جنگی عظیم کے ذلت آمیز معاہدوں کو ختم کر دے گا۔یعنی ”آؤ بنائیں ایک نیا جرمنی، ہٹلر کے ساتھ!“بالکل ایسے جیسے آج کل کوئی کہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد امریکی ڈرون مار گرائیں گے، نوجوانوں کو لاکھوں نوکریاں دیں گے اور ٹیکسوں کی وصولی میں کسی جادو کی چھڑی سے دس گنا اضافہ کر دیں گے !اس نعرے سے پہلے ہٹلر کی پارٹی کی عوام میں تائید نہ ہونے کے برابر تھی مگر 1930کے انتخابات میں اس نے 18.3%اور پھر 1932کے انتخابات میں 37.3% ووٹ حاصل کر لئے ۔ہٹلر اب جرمنی کا چانسلر تھا۔موصوف نے پہلا اعلان یہ فرمایا کہ وہ ووٹ کے ذریعے سے آئے ضرور ہیں مگر ووٹ سے جائیں گے نہیں اور یہ وعدہ انہوں نے پورا کیا۔تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا کر ایمرجنسی کے اختیارات حاصل کر لئے اور پھر فوج کا سربراہ بھی بن بیٹھا۔ایک ڈنڈا بردار فورس (Stormtroopers) قائم کی جس کا کام محض سوشل میڈیا پر گالیاں دینا نہیں تھا بلکہ وہ بلّے …اوہ…معاف کیجئے گا ڈنڈے کے زور پر لوگوں کو ہٹلر کی اطاعت پر مجبور کر تی تھی۔ہٹلر کا کہنا تھا کہ پارٹی کوئی لڑکیوں کا کالج نہیں جہاں اخلاقیات سکھائی جائیں ۔اور یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہٹلر جب شعلہ بیان تقریر کرتا تو جرمن خواتین مسحور ہو جاتیں ۔لیکن جرمن قوم نے اس شعلہ بیانی کی بھاری قیمت چکائی ۔جس مسیحا کا انہیں انتظار تھا ،وہ مسیحا انہیں مل تو گیا مگر اس کا ایڈونچرازم ایک کروڑ انسانوں کو اذیت ناک موت دے گیا اور یہ سب کچھ فاشزم کے فلسفے کے تحت ہوا۔
فاشزم کا مطالعہ خاصا دلچسپ ہے،یہ فلسفہ لیڈر کی اندھی تقلید کا تقاضا کرتا ہے جس میں عقل کی گنجائش نہیں ہوتی۔فاشزم کے پیروکاراپنے نظریات کو دلیل سے پرکھنے کی اجازت نہیں دیتے اور فقط اپنے لیڈر پر اعتقاد کے زور پر ایک عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اطالوی فاشسٹ حکمران مسولینی کے دور حکومت میں سکولوں میں اس کی جو تصویر آویزاں کی جاتی اس کے نیچے یہ عبارت درج ہوتی کہ ”مسولینی ہمیشہ درست ہوتا ہے ۔“لو …کر لئو گل!فاشسٹ اپنے تئیں کچھ ایسی ”سچائیوں “ کو حتمی تصور کر لیتے ہیں جو ان کا لیڈر انہیں رٹا دیتا ہے لہٰذا ان پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا اور اگر کوئی شریف آدمی ان نام نہاد سچائیوں کو چیلنج کرنے کی کوشش کرے تو اسے تشدد کے ذریعے ”قائل“کر لیا جاتا ہے ۔
فسطائیت کا ایک زریں اصول یہ بھی ہے کہ سیاست میں حریف نہیں فقط دشمن ہوتے ہیں اور دشمن چونکہ شر اور برائی کی علامت ہے لہٰذا اسے نیست و نابود کرنا عین ثواب ہے ۔اسی زریں اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے جرمن نازیوں نے گیس چیمبرز اور کنسنٹریشن کیمپوں میں لاکھوں لوگوں کو موت کی نیند سلا یا۔اسی طرح فاشسٹ بھائی صدق دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ کروڑوں کی آبادی میں صرف چند لوگ ہی پیدائشی طور پر ،تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر یا معاشرے میں اپنے قد کاٹھ کے بل بوتے پرایسی خداداد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں جو حکومت سنبھال سکیں ۔یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایسی اقلیت کو عوام کی تائید بھی حاصل ہو جاتی ہے مگر اس عوامی تائید کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جمہوریت میں یقین بھی رکھتے ہیں کیونکہ فاشسٹ حکومت عوامی تائید کی پرواہ کئے بغیر چلائی جاتی ہے جس میں الیکشن، میڈیا اور اپوزیشن کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی ۔ فاشسٹ اشرافیہ خود کو ہر قسم کی تنقید سے ماورا سمجھتی ہے ،ان سے اختلاف کرنے والا واجب القتل ٹھہرتا ہے اور معاشرے کی تشکیل سے متعلق ان کے نظریات،ان کی تئیں، کبھی باطل نہیں ہو سکتے۔ ان فسطائیوں کے نزدیک ان کا لیڈر معصوم من الخطاء ہے جسے قدرت نے پراسرار قوتوں سے نوازا ہے ،دور اندیش اور ذہین ترین شخص ہے اور انسانی شکل میں ایک فرشتہ ہے۔اگر عوامی رائے عامہ اور فاشسٹ لیڈر میں اختلاف ہو تو لیڈر کا فیصلہ حتمی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ صرف اسی کو پتہ ہے کہ عوام کا مفاد کس بات میں ہے !فسطائیت میں مسیحا کا درجہ ایسا ہے کہ اس کے پیروکار ہر وقت یہی سوچتے رہتے ہیں کہ اگر ان کے لیڈر کو کچھ ہو گیا تو نظام کا کیا بنے گا!
بطور قوم ہم بھی ایک لیڈر کی تلاش میں رہتے ہیں، لیڈر کی شکل میں ہمیں ایک ایسا مافوق الفطرت انسان چاہئے جو ماورائی طاقتوں کا حامل ہو اور جس کے پاس ہمارے تمام خوابوں کی تعبیر ہو ۔ہم اس تعبیر کی لالچ میں لیڈر کو وہ اختیارات بھی سونپنے کے لئے تیار ہیں جن سے ہمارے حقوق سلب ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی پسند کے لیڈر کو خطاکار انسان نہیں بلکہ دیوتا سمجھتے ہیں جو کبھی ہماری بھلائی کے خلاف نہیں سوچے گا۔ ہٹلر نے بھی یہی سبز باغ دکھائے تھے ،آج ہمیں بھی یہی سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں ۔
تازہ ترین