• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ "مملکت خداداد پاکستان" ،"دو قومی نظریہ" کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ تاکہ ایک رب کے ماننے والے بلا کسی روک ٹوک کے اپنے "معبود حقیقی" کی یکسو ہو کر "عبادت" کرسکیں۔ اور اس کے "محبوب صلی اللہ علیہ وسلم" کے بتائے طریقے کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ لیکن جب شعور کی منازل طے کیں تو پتا چلا کہ "ایک قوم" کئی فرقے میں تقسیم ہو چکی ہے۔ رب کی عبادت سے زیادہ ایک دوسرے کی تذلیل کو "فرض عین" سمجھتی ہے۔ لیکن یہ تقسیم صرف عبادات تک محدود تھیں۔ معاملات اور معاشرت اس سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوئیں تھیں۔ پھر عصبیت کی بنیاد پر تقسیم کی گئی۔ مگر بھلا ہو "گلوبل آئزیشن" (عالمگیریت ) کا جس نے دوسرے ممالک کی تہذیب کو "ٹی وی ڈراموں اور فلموں" کے ذریعے ہمارے اندر ایسا سمویا کہ سب اپنی اپنی "قابل فخر تہذیب" کو بھول کر پڑوسی ملک کی تہذیب کو اپناگئے۔ یعنی جن کی تہذیب سے چھٹکارا حاصل کیا تھا کہ مذہبی عقائد درستگی کے ساتھ ادا نہیں ہو سکتے تھے ۔ اب انہی کی طرز معاشرت کو اپنا لیا گیا جو بظاہر ابھی تک ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں۔آگے بڑھے تو معلوم ہوا کہ اب پاکستان کو تبدیل ہونا ہے۔ یعنی نیا پاکستان بننا بہت ضروری ہے ۔ جس میں ہر طرف صرف دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ انصاف کا بول بالا ہو گا۔ ہر شخص کو بنیادی حقوق حاصل ہوں گے۔ بنیادی ضروریات زندگی ہر شخص کی پہنچ میں ہوں گی۔ عوام نے بڑی خوشی خوشی "نئے پاکستان" کی تیاری شروع کر دی۔ لیکن پتا ہی نہیں چلا کب "پرانا دو قومی نظریہ" ہمارے درمیان میں سے نکل گیا اور اس کی دوسرے نہیں معاف کیجیئے گا "نئے دو قومی نظریہ " نے لے لی۔ اب نیا پاکستان دو نئی قوموں پر مشتمل ہے۔ ایک قوم ہے "یوتھیا" اور دوسری ہے "پٹواری"۔ خدا گواہ ہے یہ لکھتے ہوئے دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ ایک رب کی عبادت کرنے کے لئے جو ملک بنا ہو وہ "نیا" ہوکر "دو شخصیات کے پیروکاروں" میں تقسیم ہوگیا۔ ان "دونوں قوموں" کے افراد کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھالنا، عیب جوئی کرنا، غلیظ الفاظ کا استعمال کرنا، ذاتی زندگیوں کے راز معلوم کرنا اور پھر انھیں نمک مرچ لگا کر دنیا بھر میں پھیلانا، حتی کہ خواتین کی عزت بھی اچھالنا ۔ پھر بڑے فخر سے اسے سوشل میڈیا میں ڈال داد و تحسین وصول کرنا۔ جبکہ ہمیں ( مسلمانوں ) کو حکم ہے کہ دوسرے کے عیبوں پر پردہ ڈالو، کسی کو برے ناموں سے نہ پکارو، عیب جوئی نہ کرو، کسی کو دل نہ دکھاو۔ لیکن ہم تو ایک قوم بننے کہ بجائے، پٹواری اور یوتھیا بن گئے ۔ ایک رب کی عبادت کے بجائے اپنی اپنی پارٹی رہنماؤں کی عبادت میں لگ لگئے۔ جو ان کا دشمن وہ ہمارا دشمن، جو ان کو کچھ کہے گا ہم اس کا ایسا منہ توڑ جواب دیں گے کہ وہ ساری عمر یاد رکھے گا، ہمارے لیڈر پر جان بھی قربان ہے، ہمارے لیڈر کے منہ سے نکلی ہوئی بات درست اور قابل تسلیم ہے اور اس پر من و عن عمل ہم پر فرض ہے۔ لیکن کیا اسی لئے پاکستان بنا تھا کہ لوگ "اتحاد، ایمان، یقین اور تنظیم " کا سبق بھول کر "شخصیت پرستی" میں اتنا ڈوب جائیں کہ سوچ وسجھ سے بالکل عاری ہو جائیں ۔ ماضی میں بھی کئی دفعہ یہ ہوچکا ہے۔ شخصیت کے پیچھے بھاگنے والوں کو کیا ملا؟سب سے بڑھ کر شخصیت پرستی کی ہمارے مذہب میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ورنہ کبھی یہ حکم نہ ہوتا کہ "تمھارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت تمھاری جان، اولاد اور مال سے بڑھ کر نہ ہوجائے"۔لیکن آج کیا ہورہا ہے۔ ہرزہ سرائی کا بازار گرم ہے، انسانیت کی پستی بڑھتی جارہی ہے، جگت بازی عام ہورہی ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے"۔ ہم ایسے عشاق ہیں اپنے آقا کے جنہیںشفاعت یاد رہتی ہے اطاعت بھول جاتے ہیں۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین