تحریر: عالیہ کاشف عظیمی
ماڈل :فوزیہ جنید
ملبوسات: امبر کلیکشن، فیشن کوریڈور
آرایش:ماہ روز بیوٹی پارلر
عکّاسی :ایم کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
عاکف غنیؔ کا ایک شعر ہے؎’’ہر کام کا وقت مقرّر ہے، ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے …کس بات کی آخر جلدی ہے، کس بات کا پھر یہ رونا ہے ‘‘ اورایک اور شعر ہے؎’’وقت کب ہاتھ سے جاتا ہے کسی کے ساحرؔ…وقت کے ہاتھ سے ہم لوگ نکل جاتے ہیں‘‘۔تو سچ پوچھیں تو یہ وقت ایک معمّا ہی ہے کہ اگلے پَل کی خبر نہیں ہوتی کہ اپنے ساتھ خوشی لائے گا یا غم۔ اور یہ گُتھی بھی نہیں سلجھتی کہ گزرا وقت آخر کہاں جاکے غائب ہوجاتا ہے۔ کبھی تو ریت کی مانند مُٹّھی سے پھسل جاتا ہے، تو کبھی پانی کے ریلے کی طرح گزر جاتا ہے۔
اب یہی دیکھ لیں، جب نئے سال کا آغاز ہوا تھا، تو کسی نے سوچا تھا کہ زندگی کے چھے، آٹھ ماہ اس طرح لاک ڈاؤن کی نذر ہوجائیں گے۔ بہرکیف، وقت کا کام تو گزرنا ہی ہے، تو کیوں ناں اسے خوشی خوشی، ہنس کھیل کے گزارا جائے۔لیجیے، آپ کے گزرتے لمحوں کو کچھ حسین و دِل کش بنانے کے لیے ہم نے بھی اپنی بزم ایک بار پھر کچھ دیدہ زیب، اسٹائلش سے پہناووں سے مرصّع کردی ہے۔
ذرا دیکھیے، ڈارک گرے رنگ غرارے کے ساتھ کام دار قمیص کیسی پیاری لگ رہی ہے۔ غرارے کے جوڑ پر گوٹا لیس اور پائنچوں پر کاپررنگ سِلکی پٹّی کے ساتھ قمیص کے فرنٹ پر زری، موتی ورک بھی خوش گوار تاثر دے رہا ہے۔ عنّابی رنگ پیراہن ایک انداز جداگانہ ہے۔ فلیپر پینٹ کے ساتھ پرنٹڈ قمیص کے گلے پر ایمبرائڈری کی گئی ہے، تو آستینوں کی دِل کشی و رعنائی بھی کچھ کم نہیں۔ لیمن رنگ کے دو شیڈز میں لانگ شرٹ کی پرنٹڈ ٹراؤزر کے ساتھ ہم آمیزی ہے، تو سفید رنگ ٹیولپ شلوار کے ساتھ بھی اس کی جاذبیت کمال ہے اور پھر فیروزی رنگ پہناوے پر نفیس ایمبرائڈری کے جلوے کے تو کیا ہی کہنے۔
ہمارے انتخاب میں سے کچھ بھی منتخب کرلیں، آئینہ کہہ آٹھے گا،’’کس کے آنے سے گلستاں کی فضا اور لگی…‘‘۔