خون کیا ہے اور انسان کے جسم میں اس کی کیا اہمیت ہے یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں اور خون کی قدر و قیمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب خون کی کمی کی وجہ سے ہماری یا پھر ہمارے کسی عزیز کی جان خطرے میں ہو اور ایمرجنسی کی صورت میں فوراً خون کا بندوبست کرنا پڑے۔ خون کی قدر و قیمت صرف اس بنا پر اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ خون اصل میں وہی ہوتا ہے جو قدرتی طور پر انسان کے جسم میںبن چکا ہوتا ہے ۔ کیونکہ خون مصنوعی طریقے سے نہیں بنایاجاسکتا اور نہ ہی کوئی اور مادہ اس کا متبادل ہوتا ہے۔ آج کل کے دور میں بہت سے مصنوعی اعضا جیسے نقلی ٹانگیں، ہاتھ، دل، گردے، مصنوعی بالوں کے علاوہ اگر کھانے پینےکی اشیا پر نظر ڈالیں تو پائوڈر والا دودھ اور بہت سے مصنوعی فلیور ایجاد کرلئے گئے ہیں جن کا استعمال بڑی کامیابی سے جاری ہے لیکن انسان مصنوعی خون بنانے سے ابھی بھی قاصر ہے۔ لہٰذا بلڈ کے بغیر اور اس میں ایک خاص حد تک کمی زندگی کا خاتمہ بھی کرسکتی ہے۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ خون اپنی کیا اہمیت رکھتا ہے۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ اگر جسم میں کوئی معمولی سی خراش آجائے تو محض چند منٹوںمیں خون کا بہائو خود بخود بند ہو جاتا ہے اور اگر زخم گہرا ہو تو وہاں پر خون کا لوتھڑا یعنی ’’کلوٹ‘‘ بن جاتا ہے جو مزید بہائو کو روک دیتا ہے خون کے جمنے کے اس عمل کوطبی زبان میں کلوٹنگ میکانزم کہتے ہیں اس عمل میں تقریباً بارہ اجزا حصے لیتے ہیں جو کلوٹنگ فیکٹرز کہلاتے ہیں اگر ان فیکٹرز میں سے کسی ایک فیکٹر کی کمی بھی وا قع ہو جائے تو ذرا سی چوٹ وغیرہ لگنے سے خون یونہی بہنا شروع ہو جاتا اور پھر کافی دیر تک بہتا ہی رہتا ہے بلکہ ضائع ہوتا رہتا ہے اور مریض تشویش ناک حالت میں آ جاتا ہے۔ معمولی سی چوٹ لگنے پر بھی خون کا زیادہ عرصہ تک ضیاع ہونا اورقدرتی طور پر بہنے سے نہ رکنا ہی دراصل ہیموفیلیا کا مرض کہلاتا ہے۔ ہیموفیلیا کا عالمی دن ہر سال 17 اپریل کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں منایا جاتا ہے جسکا مقصد لوگوں میں ہیموفیلیا جیسی بیماری کےبارے میںآگاہی پیدا کرنا اور ان مریضوں کے علاج کیلئے آسانیاں اور سہولتوں میں اضافہ کرنا شامل ہے تاکہ اس مرض کے شکار افراد کی زندگیوں کوبہتر اور محفوظ بنایا جا سکے۔ ایک مشہور عالمی تنظیم ورلڈ فیڈریشن آف ہیموفیلیااس مقصد کو پورا کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اس سال کا تھیم ہے۔
Treatment for all ..... The vision of all.
عام نارمل انسان میں معمولی سی چوٹ لگنے پر خون خودبخود رک جاتا ہے ۔مگر ہیموفیلیا کے مریضوں کے ساتھ ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا کیونکہ ان کے خون میں کلوٹ بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور یہ کلوٹنگ ہی تو جسم کا خون ضائع ہونے سے بچاتی ہے چونکہ خون پلازما (پروٹین) سرخ خلیات، سفید خلیات اور پلیٹ لیٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور کلوٹنگ میں سب سے اہم کردار کلوٹنگ فیکٹرز یا ہیموفیلیا فیکٹرز کہلاتے ہیں جو خون کی بیماری میں اہم کردار کرتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کلوٹنگ فیکٹرز کی کمی میں مدد صرف اور صرف معاشرتی فیکٹرز ہی کرسکتے ہیں یعنی معاشرے میں رہنے والے مخیرحضرات اپنے حصے کا مالی فیکٹر اور خون کے عطیات دے کر ہیموفیلیا فیکٹرز کا نعم البدل ثابت ہوسکتے ہیں اور ان مریضوں کی زندگیوں کو محفوظ اور صحت مندی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ مگر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان معاشرتی فیکٹرز کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا مریض سسک سسک کر زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ان معاشرتی اداروں میں پاکستان بیت المال کسی حدتک تو ان معصوم مریضوں کی مدد کر رہا ہے مگر پھر بھی کئی ہیموفیلیا کے مریض ہر روز اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ میرا خود سے اور معاشرے میں رہنے والے تمام مخیر افراد سے سوال ہے کہ کیا ہیموفیلیا سے مرنے والا شخص انسان نہیں ہوتا؟ اگر انسان ہوتا ہے تو پھر ان مریضوں کی دیکھ بھال کیوں نہیں کی جاتی جس طرح ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب نے خطرناک بیماری میں مبتلا افراد کیلئے جو ایک خاص رقم مختص کی ہے اس بیماری میں مبتلا افراد کیلئے بھی کی جانی چاہئے۔ صد افسوس کہ ہیموفیلیا کے اداروں کو صحیح معنوں میں نہ کوئی خاص توجہ دی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی خاص مالی تعاون حاصل ہے۔ تمام وزرا جو اپنی صحت کیلئے بیرون ملک دورے کرتے ہیں اگرساتھ ساتھ ان مریضوں کی صحت کا بھی کچھ سوچیں تو ان مریضوں کے حالات بدل جائیں گے۔ پاکستان میں ہیموفیلیا کے مریضوں کے علاج میں مصروف عمل (سندس فائونڈیشن) مخیر حضرات اور کسی حد تک پاکستان بیت المال اور حکومت پنجاب کے تعاون سے ہیموفیلیا کے مریضوں کو اعلیٰ معیار کی طبی سہولتیں مہیا کرنے کی کوشش میں ہے مگر جب تک تمام معاشرتی طبقے ان ہیموفیلیا کے مریضوں کی خدمت کا ذمہ نہیں لیں گے تب تک ہیموفیلیا کے فیکٹرز کی کمی کو پورا نہیں کیا جاسکتا اور پاکستان میںرہنے والا ہر شخص جب تک اس سوچ کا مالک نہیں ہوگا کہ وہ مالی طور پر، یا اخلاقی طور پر ان مریضوں کی حوصلہ افزائی کرے اور اپنا خدمت کا جذبہ ان مریضوں کیلئے مختص نہ کرے تب تک ہم حقیقی معاشرہ تشکیل نہیں دے سکتے۔