• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں تو آج بھی مملکت خداداد پاکستان کے تمام عوارض کا علاج انقلاب ہی ہے، لیکن فی زمانہ یہ لفظ جتنا بے معنی و بے توقیر بلکہ ایک حد تک متروک ہو چکا ہے، ماضی میں اُسی قدر بامعنی اور معتبر تھا، ہم نے سرد جنگ کے زمانے میں انقلاب کی دُھن پر اصحاب کو دھمال کرتےدیکھا، ہم خود بھی ان کارکنوں میں شامل تھے جو سرخ ہے سرخ ہے، ایشیا سرخ کے نعرہٗ مستانہ پر دیوانہ وار صبح و شام کیا کرتے تھے۔ گزشتہ روز جب ایک کتاب دوست کفایت اللہ خٹک نےپشتو مزاحمتی ادب و سیاست کے بے بدل مجاہدشمس بونیری کی پشتو کتاب’ فکرو نہ یادونہ اوخیالونہ‘ راولپنڈی سے بھیجی تو قلب و نظر بے اختیار ماضی کے رومان پرور سیاسی دور میں جاگزیں ہوئے اوربے اختیار دل میں فیض صاحب کا یہ شعر مچلنے لگا۔
پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اُس بزم میں جانے کا نام
شمس بونیری وہ ہیں جن کی نوجوانی کے زورکو بھٹو صاحب کےجبر نے کم کرنے کی کوشش کی اور جن کی جوانی کوضیاصاحب کے دور میں چارمرتبہ قید و بند کی صعوبتوں نے آزمایا۔اس دور میں بدنام زمانہ ٹارچر سیل ( قلعہ بالاحصار) میں ان پر روا رکھے جانے والے تشدد کے گواہ آج بھی پھولوں کے شہر پشاور کے اکثر باسی ہیں۔ اس دور میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی، ضیاء صاحب کے دور کے خاتمے کیساتھ ہی دیگر سیاسی قیدیوں کی طرح رہا ہوئے اور یوں ابتلا کا یہ زمانہ وقتی کروٹ لینے پر مجبور ہوا۔ ان کا جرم کیا تھا ؟ وہی جو سقراط، منصور، سرمد اور باچا خان کا تھا، ضیاء صاحب کے مارشل لاکے نزول کے دو تین سال بعد جب ہم کالج میں گئے تو شمس بونیری کے انقلابی کلام نے ہمیں اپنی طرف یوں متوجہ کیا کہ پھر کہیں اور کسی اور کا رہنے ہی نہ دیا، ابھی ہم پر شعور و ادراک کے دریچے وابھی نہیں ہوئے تھے کہ شمس بونیری جوانی میں جیسے پیروں کے استاد کا درجہ پا چکے تھے۔ اس دور میں اگرچہ ہر طرف اجمل خٹک کی انقلابی نظموں، غنی خان کے ترانوں اور رحمت شاہ سائل کے انقلابی گیتوں کا دور دورہ تھا ،لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم شمس بونیری کے سور سحر(سرخ سویرا) پڑھتے پڑھتے ، سنتے سناتے مست رہتے تھے۔ راقم کواُس دورمیں اکثر بڑے قوم پرست رہنمائوں کے جلسوں میں نظامت کا اعزاز ملا، یہاں تک کہ 1986ءمیں بنارس کراچی میں حضرت باچا خان کے آخری تاریخی جلسے کی نظامت کی سعادت بھی اِس ناچیز کو حاصل ہوئی ، طالب علم کو شمس بونیری کے اِس مقبول عام مجموعہ کلام کے اکثر قطعات و اشعار ازبر تھے جنہیں ان جلسوں میں ہم سنایا کرتے تھے۔کہنا یہ مقصود ہے کہ یہ شمس بونیری ہی تھے جو جاگیردارانہ سماج اور استحصالی نظام کیخلاف خاص و عام کے ولولوں کو تازہ کرتے اور جذبوں کو مہمیز دیتے تھے، ہم جیسے ان گنت’ خیالی‘ انقلابی، زرداروں،خانوں،استبدادی نظام، یہاں تک کہ ملا جان سے بھی شمس بونیری کے اشعار کے ذریعے مخاطب ہوتے۔ کہا جاتا ہے کہ شمس بونیری کے سور سحر(سرخ سویرا)کو پشتو انقلابی ادب و سیاست میں وہی مقام حاصل ہے جو جناب اجمل خٹک کے ’دَغیرت چغہ‘ (غیرت کی پکار) کو ملا ۔ ہم اشتراکیت کو سمجھتے نہیں تھے لیکن یہ شمس جیسے جادوگروں کا کمال تھا کہ ہم مارکس، اینگلز اور لینن کو پیر مغاں تصور کرتے۔ اگرچہ ہم شمس بونیری کی طرح باعمل انقلابی اور نظریاتی اشتراکی نہیں تھے لیکن وہ دور ہی ایسا تھا کہ نظریاتی حوالوں سے سیاسی کارکن بس آر یا پار پریقین کرنے لگے تھے اور انقلاب شاید اسی کا نام ہے … ہاں انقلاب کیلئے خود لینن کا فلسفہ یہ تھا کہ آلوچے کو اس وقت توڑ لینا چاہئے جب یہ نہ تو کچا ہو اور نہ ہی اس قدر پک گیا ہو کہ پھر کھانے کے قابل ہی نہ رہے، یعنی انقلاب کی کامیابی سازگار حالات سے مشروط ہے،لیکن شمس بونیری اُن اصحاب میں زیادہ سرگرم تھے جو ’آلوچے‘کو قبل از وقت توڑنے پر بضد تھے۔ باچا خان نے یہی بات افغان ثور انقلاب کے روحِ رواں نور محمد ترکی سے کہی تھی کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں اس کیلئے پختون قبائلی معاشرےکو تاحال تیار نہیں کیا جا سکا ہے۔ خیر یہ ماضی کی ہیجان خیز یادیں ہیں، اب سنا ہے شمس بونیری حاجی ہو گئے ہیں، چلو اچھا ہی ہوا! لیکن یہ تو وہ تھے جن پر اجمل خٹک، فیض احمد فیض اور شاہد مارکس سے بھی زیادہ الحاد کے فتوے لگے۔ بہر صورت وہ جو کچھ بھی تھے ایک سچے انقلابی کی طرح عام انسانوں کی بقا کی خاطر فنا کی قربان گاہ میں سب سے پیش پیش و ممتاز تھے ! آج بھی وہ جو کچھ ہیں ، بس یہ کہ اپنے نام کی طرح روشن مینار ...ایسا مینار جو’ ایلم‘ (بونیرپختونخوا کے بلند کوہسار) سے بھی بلند ہے، جو ساکت و جامد نہیں، اور آج بھی باچا خان کے علم و عمل کی دنیا کی طرف عوام کو راغب کرنے کیلئے اپنی نظم و نثر سے روشنی پھیلا رہے ہیں، متذکرہ کتاب میں بھی وہ مثالوں، حکایتوں اور واقعات و مشاہدات کے حوالوں سے قوم کو اتحاد، یگانگت ، فہم و ادراک اور علم و عمل کا درس دے رہے ہیں ۔اس کتاب میں انہوں نےدوسرے لکھاریوں کے روایتی عالمانہ و ثقیل اندازکے برعکس نہایت عام فہم اور دلفریب انداز میں فلسفے، اقتصادیات ، سیاسیات، تاریخ، روایات و جنسیات کوموضوعِ بنایا ہے اور یوں بالخصوص نئی نسل تک اپنا پیغام پہنچانے کی سعی بھرپور کی ہے۔ ان کی کتاب کایہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں اور اندازہ لگائیں کہ مصنف نے اِن مسائل کی کیا خوبصورت عکاسی کی ہے جن میں ڈوب کر پاکستانی عوام کی اکثریت دنیا و مافیہا سے بیگانہ ہو کر رہ گئی ہے۔ کہتے ہیں ’’میں گلاب کے خوبصورت نقش و نگار ہاتھوں پر سجائے نمائش میں شریک تھا، لوگ اس پر مختلف تبصرے کر رہے تھے، ایک کہہ رہا تھا کہ پھول بہت خوبصورت ہیں لیکن ان کو دیکھنے والے اپنے مسائل میں اس قدر اُلجھے ہوئے ہیں کہ پھولوں کا یہ حُسن انہیں اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام ہے ‘‘ ، پختونوں کا سیاسی گیج(پیمانہ) کے عنوان پر لکھتے ہیں ’’ 2013ءکے انتخابات میں رحمت شاہ سائل کےمقابل ایک خان تھے، پختون عوام نے اِس رحمت شاہ سائل کی شکست میں خان کا ساتھ دیا، جنہوں نے تمام عمر، خان سے انہی غریب عوام کا حق واگزار کرانے کیلئے نظم و نثر کو ہتھیار بنایا، جیلوں کی تکالیف برداشت کیں، تنگ دستی کے عظیم امتحانات سے جنہیں گزرنا پڑا لیکن غریبوں کے سر پر سودا کرنا قبول نہیں کیا، انہی عوام دوست سائل نے 9ہزار اور خان نے 40ہزار ووٹ لئے‘‘ اس کتاب میں وہ’ سوارہ‘ جیسی رسم کی قباحتوں کوسادہ مگر طنزیہ انداز میں یوں بے نقاب کرتے ہیں’’ میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ پر چونکا، لوگوں نے بتایا کہ خان کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے ،میں نے مستعجب پوچھا کہ پختون تو لڑکی کی پیدائش پر جیسے مر مر جاتے ہیں، پھر یہ فائرنگ کیسی ؟ایک صاحب نے جواب دیا کہ خان کے صاحبزادے نے دوسرے خان کے صاحبزادے کا قتل کیا ہے اس بچی کو’ سوارہ‘ بدلے میں دے کر راضی نامہ کر لیں گے، اسلئےجشن بپا ہے … ۔ سور سحر، پیژندنہ، دَزندان رڑنا، دغہ سجدے مے تاتہ وی او کہ نا، جیسی مقبول کتابوں کے مصنف کی یہ تخلیق بھی بلاشبہ پذیرائی کی مستحق ہے۔خوشحال خان خٹک نے کہا تھا۔
لایو شور را زنی لاڑ نہ وی بل راشی
مگر زہ پیدا پہ ورز دشور و شریم
بابا کہتے ہیں ، ایک آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی ہوتی ہے کہ دوسری آجاتی ہے ایسا لگتا ہے کہ میں امتحانات در امتحانات کے دن ہی پیدا ہوا تھا‘‘۔ لاریب، برادر شمس بونیری نے بھی ہر دور ایسا ہی ہنگامہ خیز پایا، لہٰذاآج جب وہ ’بے عملوں‘ کے ہجوم میں قرار سے ہیں، تو نہ جانے کیوں ہمیں یہ لگتا ہے کہ وہ اِس قرار میں بھی بے قرار ہیں ..! اورگویا سیماب اکبرآبادی کی زبان میں جیسےکہہ رہے ہوں..
ہنستا ہوں یوں کہ ہجرکی راتیں گزر گئیں
روتاہوں یوں کہ لطفِ دعائے سحر گیا
تازہ ترین