کیا اس میں کوئی کمی آسکی اور اگر نتائج صاف بتا رہے ہیں کہ دہشت گردی کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس کو وہ ”دہشت گردی“ کہتے ہیں اور اس کی وسعت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور آج وہ خود کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کسی مفاہمت کی طرف جانا چاہئے تو پھر ان کو تسلیم کرنا چاہئے کہ تیرہ سال سے جو پالیسی اختیار کی گئی تھی،یہ پالیسی دہشت گردی کیخلاف نہیں تھی بلکہ کچھ اور مقاصد کے حوالے سے تھی اور وہ مقاصد بھی حاصل نہ ہو سکے اور ہمارے اس پورے خطے کو آگ کی طرف دھکیل دیا گیا۔آج صرف افغانستان نہیں جل رہا آج وہ آگ پاکستان میں داخل ہوگئی ہے، جب تک ہم پڑوسی کے گھر کی آگ کو نہیں بجھائیں گے ہم اپنے گھر کو اس آگ سے محفوظ نہیں کر سکیں گے۔ ہم نے افغانستان کے مسئلے کے حل کی طرف بھی جانا ہے، ترقی کی راہ پر گامزن اس ملک کو ہم نے آگے بڑھانا ہے۔آگے بڑھنے کے لئے تعلیم کو عام کرنا، اس کے معیار کو بہتر بنانا، طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کرنا ، سرکاری تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ سیکٹر میں قائم تعلیمی اداروں کے معیار کو برابری کی سطح پر لانا ہمارے تعلیمی منصوبہ کا حصہ ہے۔ تعلیم کو عام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم کو مفت کر دیا جائے، جب خیبرپختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت تھی تو وہاں ہم اس کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں۔ جس میں ہم نے پرائمری سے لیکر ایف اے، ایف ایس سی تک تمام وہ طلباء جو سرکاری اسکولوں میں رجسٹرڈ تھے ان کو مفت کتابیں فراہم کیں لہٰذا میٹرک تک تعلیم کو لازمی بنانا اسی صورت ممکن ہوگا جب تعلیم مفت ہوگی تاکہ والدین کو یہ بہانہ نہ ملے کہ میرے پاس تو بچوں کو تعلیم دلانے کیلئے اخراجات نہیں ہیں۔
جس طرح امیر غریب کا ایک فرق ہوتا ہے کہ تمام وسائل امیر کے پاس ہیں نواب، سردار اور خان تو ملک کے باہر چلے جاتے ہیں، تعلیم حاصل کر کے آجاتے ہیں۔ غریب آدمی جو کلرک سے آگے نہیں جاسکتا ، اس کی تعلیم کو مفت کر دیا جائے ،اس کو بڑے بڑے مواقع دیئے جائیں اور ہر ضلع میں یونیورسٹی ہونی چاہئے جب ہر ضلع کی سطح پر آپ تعلیم کو عام کر دیں گے تو طبقاتی نظام میں توازن کی طرف جائیں گے اور65سال میں یقینا ایسا نہیں ہوا لیکن ہم اس طرف جانا چاہتے ہیں۔ 18ویں ترمیم پر عملدرآمد تعلیمی اداروں کی تشکیل اور تعمیرات کا انتظام سب صوبوں کے حوالے ہو لیکن نصاب تعلیم میں مرکزیت ہونی چاہئے ورنہ ہر علاقے کا اپنا نصاب تعلیم ہوگا اور اس کی اپنی تاریخ ہوگی اور اس کی اپنی قومی شخصیات ہوں گی۔
اگر ملکی وسائل میں نظم وضبط نہیں ہے تو پھر کرپشن ہوگی۔ کرپشن کے انسداد کیلئے ہمیں خود مختار ادارے قائم کرنے ہوں گے جہاں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ وہ ادارے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہ ہوں، وہ نئے قوانین اور ضابطے سیاسی انتقام کے طور پر استعمال نہ ہوں، لوگ اسمگلنگ کرتے ہیں جو غیر قانونی تجارت ہے، ٹیکس چوری کرتے ہیں لہٰذا اس کرپشن کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ ہم نئی قانون سازی کریں۔اگر ہم ملکی معیشت کو اٹھائیں گے، ملکی وسائل کو بروئے کار لائیں گے، زراعت کو فروغ دیں گے ،صنعتوں کو فروغ دیں گے تو یہ ضروری نہیں کہ صرف سرکاری نوکری پر ہی روزگار کا دارومدار ہو بلکہ ہر شخص اپنے ماحول میں باعزت روزگار کے مواقع حاصل کر سکتا ہے اور یہ مواقع ہمیں قوم کو مہیا کرنے چاہئیں، ہر فرد اور ہر نوجوان کو مہیا کرنے چاہئیں۔ جمعیت علمائے اسلام کی یہ سوچ ہے کہ معیشت کو اس حد تک مستحکم کر دیا جائے کہ ہر شخص چاہے سرکاری سطح پر ہو، چاہے نجی حوالے سے ہو باعزت روزگار کے مواقع اس کو فراہم کئے جائیں۔ ہم نے ہر طبقے کو ایک جائز مقام دینا ہے، ہم نے خواتین کو ان کا جائز مقام دینا ہے، زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کو ازروئے شریعت اس کا اپنا جائز کردار ادا کرنے کا حق دینا ہوگا، اسے تعلیم کا حق دینا ہوگا۔ قومی سطح پر تمام تر کامیابیوں اور تمام تر فتوحات پر خواتین کو مردوں کے ساتھ برابر کی شراکت کا تصور ہمیں اٹھانا ہوگا۔
اقلیتوں کو برابر کا شہری تصورکیا جائے گا، تمام اقلیتیں برابر کے انسانی حقوق کی حقدار ہوں گے، اقلیتوں کو برابر کے شہری کی حیثیت دینا اور اس حیثیت میں ان کے تمام انسانی حقوق کا تحفظ کرنا اسلامی تعلیمات کا عین تقاضا ہے۔
نوجوانوں کے روشن مستقبل اور بالخصوص ان کے محفوظ معاشی مستقبل کے بارے میں ہمیں موثر اقدامات کرنے ہیں۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو ایک پُرامن ماحول دینا ہوگا، یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہوگی کہ ہم نوجوان نسل کے ہاتھ میں ایک خون آلود مستقبل تھما دیں۔ ہمیں نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنا ہے، انہیں فنی علوم سے آراستہ کرنا ہے، انہیں اس ملک کو چلانے اور اس ملک کی عمارت کو اور زیادہ بہتر اور مستحکم بنانے کے قابل بنانا ہے۔ اس وقت ہمارا نوجوان مایوسی کی طرف جارہا ہے اس لئے کہ وہ پاکستان کی ماضی سے یا تو بے خبر ہے یا پھر مایوس ہے۔ اگر نیا نوجوان دو انتہاؤں پر چلا جائے، آپ خود اس بھیانک مستقبل کا تصور کریں تو پھر سوچیں کہ کیا بنے گا؟ اگر آپ کا ایک نوجوان مذہبی جذبے سے سرشار ہے اور وہ سمجھے کہ ہمارا آئین اور ہمارا قانون اس حوالے سے ہماری تشنگی دور نہیں کر رہا اور وہ بندوق کی طرف چلا جائے اور ہمارا ایک نوجوان طبقہ جو سیکولر خیالات کا علمبردار ہو، وہ مادر پدر آزاد معاشرے کی طرف چلا جائے، کیا ہم آنے والی نسل کو ان دو طبقوں میں تقسیم کر کے ملک کے اندر ایک ایسا نیا مستقبل جنم دینا چاہتے ہیں جہاں پر ایک فکری تصادم کا ہمیں سامنا کرنا پڑے۔ ہمیں ان دو انتہاؤں کے بیچ کی پالیسی بنانی ہوگی اور اس طرح کا نظام ہمیں ان کو دینا ہوگا۔
ملک کو اس قابل بنانا کہ صحت اور علاج معالجے کی مفت سہولتیں فراہم کی جائیں ۔اس کا تجربہ بھی صوبہ خیبرپختونخوا کے محدود وسائل اور محدود اختیارات کے اندر ہم کر چکے ہیں کہ پورے صوبے کے تمام اضلاع میں اے لیول اسپتال قائم کرکے، ابتدائی اقدامات کر کے ایمرجنسی مفت کر دی گئی۔ یہ ایک آغاز تھا اور اس پالیسی کو پورے ملک میں لاگو کیا جا سکتا ہے۔صاف پانی لوگوں کو مہیا کرنا، اللہ کی جو فراوان نعمت ہے اس کو بھی ہم نے صرف مخصوص طبقے کیلئے خاص کر دیا ہے، یہ سہولتیں ہر شہری کو حاصل ہونی چاہئیں، اس میں فراوانی ہونی چاہئے اور اس کیلئے باقاعدہ نظام ہونا چاہئے ۔انصاف کا حصول آسان ہوناچاہئے اس سلسلے میں ہمیں نظام میں تبدیلی لانی ہوگی۔ انصاف تک ہر آدمی کی رسائی کیلئے عدالتوں کے نظام کو آسان بنانا ہو گا، مہنگے انصاف کا تصور ختم کر دینا چاہئے، انصاف کا یہ نظام جو ملک پر آج تک مسلط ہے، یہ انگریز کے دور کی یادگار ہے، اس میں صحت مند قسم کی ایسی تبدیلیاں لانی ہوں گی جس میں عام آدمی کیلئے انصاف کا حصول انتہائی آسان اور سستا ہو۔ جمعیت علمائے اسلام شریعت کی رو سے اس بات کو ضروری سمجھتی ہے کہ وسائل پر سب سے پہلا حق ان علاقوں کے عوام کا ہے جہاں یہ وسائل پیدا ہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر صوبائی خود مختاری اول روز سے جمعیت علمائے اسلام کے منشور کا حصہ رہی ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی جماعتیں صوبائی خود مختاری کی علمبردار ہیں لیکن صوبائی خود مختاری کے حوالے سے ان کا نظریہ جمعیت علمائے اسلام کے نظریئے سے بہت پیچھے ہے۔ وہ اس قسم کے نظریات کی نسبت اپنی طرف کرتے ہیں اور ہم ان نظریات کی نسبت شریعت اسلامیہ کی طرف کرتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں جو وسائل ہیں، وہاں کا سینڈک پروجیکٹ ہو یا ریکوڈک یا گوادر پورٹ ہو، ان کے تمام منافع کے اولین حقدار صوبہ بلوچستان کے عوام ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں جو وسائل ہیں، معدنیات ہیں، دریا ہیں اور ان وسائل سے جو منافع اور فوائد ہیں اس کے اولین حقدار صوبہ پختونخوا کے عوام ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے جو وسائل ہیں، ان کے منافع پر سب سے پہلا حق وہاں کے عوام کا ہے۔ اگر ہم اپنے ملکی وسائل کو زیر استعمال لائیں تو ہمیں شاید کسی ملک کیساتھ گیس پائپ لائن کے معاہدے کی ضرورت نہ پڑے۔ مقامی سطح پر لوکل باڈیز کا نظام ایک ناگزیر چیز ہے اور ماضی میں ایک مشکل رہی ہے کہ جب کوئی ڈکٹیٹر آتا ہے تو وہ قومی سطح پر موجود عوامی ادارے کو تحلیل کر لیتے ہیں اور لوکل باڈیز کو اٹھاتے ہیں پھر جب سیاسی حکومتیں آتی ہیں وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو وجود میں لاتی ہیں، لوکل باڈیز کی طرف توجہ نہیں کرتی۔ اگر قومی اور مقامی سطح دونوں کی حکومتیں اور باڈیز آئین کا تقاضا ہیں تو ہم جس طرح وفاقی اور صوبائی سطح پر انتخابات کے ذریعے قومی اداروں کی تشکیل کو اہم سمجھتے ہیں، ہمیں لوکل باڈیز کے قیام کو بھی اس طرح اہم سمجھنا ہوگا۔
اسی طرح قدرتی آفات یا فوجی آپریشن کے نتیجے میں متاثر ہونے والے خاندانوں کو بحال کرنا، ان کی زندگی کو معمول پر لانا اور شورش زدہ علاقوں کو مراعات یافتہ علاقوں کے برابر لانا جمعیت علمائے اسلام کی ترجیح ہو گی اور یہ ہمارے منشور کا حصہ ہو گا۔میڈیا قومی اداروں کے احتساب میں اہم کردار اداکرتا ہے لہٰذا ہم میڈیا کی آزادی کو یقینی بنائیں گے۔ تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات اپنے فرائض کی ادائیگی میں آزاد ہوں گے۔ میڈیا کے معاملات کیلئے ایک الگ اور خودمختار کمیشن بنایا جائے گا جس میں میڈیا کے لوگ شامل ہوں گے وہ میڈیا کے معاملات کو دیکھیں گے اور عوام کو بھی آزادی اظہار کا حق حاصل ہو گا۔
عوام گیارہ مئی کو قیادت منتخب کرنے جارہے ہیں جن کی بعد میں اچھی یا بری کارکردگی کے وہ بھی نصف ذمہ دار ہوں گے لہٰذا وہ اچھے کرداروں کیلئے ووٹ ڈال کر گواہی دیں۔
(مصنف جمعیت علماء اسلام کے سربراہ ہیں)۔