• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اشیائے خورو نوش کی کمر توڑ مہنگائی بنیادی سہولتوں سے طویل محرومی ، حج سیکنڈل سمیت کھربو ں کی ریکارڈ کرپشن ، پانچ سال سے ملک میں پھیلے اندھیرے ، بے روزگاری کی تشویش ناک شرح اور ریلوے ، پی آئی اے اور نظامت پاسپورٹ جیسے عوامی خدمت کے اداروں کی تباہی اور سب سے بڑھ کر گھر سے باہر نکلتے ہیں ہر لمحے مال و جان کے در پہ امن عامہ کی بے قابو صورت حال ، اس مرتبہ انتخابی نتائج کو بڑی حد تک متاثر کرے گی ۔عوام کا دل موہ لینے والی ایک قومی ضرورت ( جس کا ذکر آگے آ رہا ہے ) جس پر پی پی تو بالکل بات نہیں کر سکتی ، میاں نوازشریف اور عمران خان کی تقریروں میں بھی تقریباً گو ل ہو رہی ہے۔ دونوں کے میڈیا سیل بھی خاموش ہیں اور ان کی اس پر خاموشی ان کے سٹیٹس کو کے رنگ کو واضح کر رہی ہے ۔ الیکشن - 13کا یہ پس منظر انتخابی عمل کو تو متاثر کر چکا ہے ، یوں کہ روایتی حریف ن لیگ اور نئی عوامی سیاسی قوت ، تحریک انصاف کی انتخابی سرگر می کے مقابل تو جیسے سانپ سونگھ گیا ۔ کمسن قائد کوتو گھاگ بننے میں وقت لگے گا ۔ پارٹی کے اصلی سربراہ ملک کے بھی سربراہ ہیں ، عدلیہ کا فیصلہ ہے کہ سربراہ مملکت ، پارٹی سربراہ بن کر انتخابی سر گرمی میں شریک نہ ہو۔ گلی محلوں اور اعلیٰ پائے کے دونوں ہی تجزیوں میں پی پی کو تیسرے نمبر پر ہی لیا جا رہا ہے ، لیکن کچھ سیاسی پنڈت ، پی پی کے کوئی بھی فنکاری دکھا کر دوسری پوزیشن حاصل کر نے کا اندازہ بھی لگا رہے ہیں ۔ سندھ کارڈ کا کونا تو پہلے ہی پھٹ چکا ہے ، اقتدار کی باری میں پی پی کے گلے سے تعویز کی طرح جڑی اے این پی ، الیکشن کی ہمت توکر رہی ہے ،لیکن خیر پختونخوا میں آئے روز کے دھماکوں اور ہلاکتوں سے اس کے رہنمااور کارکن پینک بھی ہیں ، جو قدرتی ہے ۔ جن بم بندوق والوں نے انہیں اور ایم کیو ایم کو اپنا ٹارگٹ بنایا ہوا ہے ، وہ دہشت گرد ہوں گے تو ہوں گے ، سادے بھی بہت لگتے ہیں ۔ ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ان دونوں ٹارگٹ پارٹیوں کے لیے اب ووٹرز کی ہمدردی خاصی بڑھتی جارہی ہے ، لہٰذا یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ انتخابی مہم میں حسب روایت اپنے رنگ ڈھنگ کے ساتھ شریک نہیں ہو پار ہے تو اپنے روایتی ووٹ سے بھی محروم ہو جائیں گے ۔ شرمناک کار کردگی کے بوجھ کے ساتھ پیپلز پارٹی اس کے مخالف ووٹ ن لیگ اور تحریک انصاف میں تقسیم ہو نے کے اطمینان کی گٹھڑی اٹھائے ہوئے ہے ۔ باتیں تو یہا ں تک ہو رہی ہیں کہ جہاں پی پی کا امیدوار بالکل کمزور ہے ، وہاں پارٹی جیالوں کو آخری دنو ں میں ہدایت کی جائے گی کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ کی فنکاری سے ن لیگ کو واضح طور پر نمبر ایک پارلیمانی پارٹی بننے سے روکیں ،اوریوں وہ پاکستان کے اقتدار کی چھٹی باری لینے کا'' معجزہ '' تراشے ۔ پاکستانی سوسائٹی ، کیا شہری اور کیا دیہاتی ، کیا پہاڑی ، من حیث القوم ہمارے عوامی رویے بڑے عجیب و غریب ہیں ، لیکن اس پیچیدہ حقیقت کے باوجود اتنا خاصا واضح ہے کہ پی پی کے دیئے گئے دکھوں کے ساتھ اب بھٹو کے ماننے والوں سمیت عوام پارٹی کی ماتمی انتخابی مہم میں اس سے تعزیت کرتے نظر نہیں آر ہے ، کہ وہ خود پانچ سال سے قابل تعزیت ہیں ۔
پاکستان اور اس کے عوام کی حالت بدلنے کے لیے ایک روایتی اور ایک نئے رہنما ء اپنے اپنے طور پر طرح طرح سے رت بدلنے کی یقین دہانیاں کرا رہے ہیں ۔ ان کے میڈیا سیل بھی سر گرم ہیں اور ابلاغی معاون بھی قلم و زباں سے سر توڑ کوشش میں ہیں کہ لوگ ان کی پارٹی کو زیادہ سے زیادہ ووٹ دیں ۔یہ سب ، رہنما اور کارکن اور ان کے میڈیا سیل اور کمیونی کیشن سپورٹرز ، کمیونی کیشن سائنس کے اصولوں کے مطابق مخاطب عوام کی اقسام بندی ( سیگ مینٹیشن) کر نے میں ناکام ہیں ۔ سارے ووٹرز کو ایک ہی جیسا سمجھ کرپیغام سازی عمومی پیرائے میں کی جارہی ہے ۔ اس کے مقابل پیپلز پارٹی پھر سمارٹ ثابت ہو ئی ، اس نے ان لاکھوں غریب ترین خاندانوں کو مخاطب کیا ہے ، جن کو پانچ سال تک اس نے بے نظیر کے نام پر آ ٹا بانٹنے کے لیے ایک ہزار روپے ماہانہ دیا۔ گندم کے کسانوں سے بھی مخاطب ہوئی ، جن کے مال کی قیمت اس نے اپنی پوری باری میں اڑھائی گنا بڑھا دی ۔
بہار جمہوریت کے حوالے سے خاکسار میاں نواز شریف اور عمران خان کی خدمت میں ملین ڈالر ٹپ بطور تحفہ پیش کرتا ہے ۔ امیدہے قبول فرمائیں گے۔ جس نے تحفے کو بہتر طور پر سمجھ لیا او ر اس کے مطابق عمل بھی کیا ، انشااللہ فلاح پائے گا ۔ ہر دو قومی عوامی سیاسی جماعتیں ، ن لیگ او رتحریک انصاف ،اپنی انتخابی مہم میں جس قومی ضرورت پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں ، وہ ہے این آر اوکے بعد ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں بننے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں مچنے والی لو ٹ مار کا حساب کتاب ۔ جس میں اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کا کھربوں لو ٹ لیا گیا ۔ یہ کس کس نے لوٹا اور کہاں کہاں ٹھکانے لگایا ؟ اب کیسے واپس لایا جائے گا ؟ یا لٹیروں کو بھی کوئی استثنا ء کے ان کے خلاف آنے والی حکومت کے ہاتھ پاؤں بندھے ہونگے کہ وہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کر سکیں گے ؟ میاں صاحب اور خان صاحب بھی بتائیں دو نوں کے ابلاغی کیمپ بھی کہ ، آپ ٹیکس چوری اور قرض خوری کے انسداد ا، چوری ہوتے ٹیکس کی وصولی اور ہڑپ قرضوں کی قومی خزانے میں واپسی کے لیے کیا عملی اقدامات کریں گے ؟آپ کے منشور میں تو اس اہم ترین قومی ضرورت کو بہت عمومی انداز میں نچلے درجے کی ترجیح کے طور پر شامل کیا گیا ہے ۔اب آپ ہمیں اپنی انتخابی مہم کی تقریروں میں اس موضوع پر اپنے عزائم تو کھولیں ۔
کیا آپ تمام اراکین پارلیمنٹ کے اثاثوں ، ٹیکس اور اب تک لیے گئے معاف کرائے گئے قرضوں کی تمام تر تفصیلات پر مبنی ایک ویب سائٹ تیار کر نے پر آمادہ ہیں ؟ اور اس پر بھی کہ آپ کے اثاثوں میں جو اضافہ ہو ا ، آپ اور آپ کی آل اولاد اندرون اور بیرون ملک جو سرمایہ کاری کرے گی ،اس کی تمام تر تفصیل عوام کی اطلاع کے لیے ویب سائٹ پر موجود ہوگی ۔ کیا آپ اس سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ اس ویب سائٹ پر غلط اطلاع دینے والے منتخب نمائندے کے خلاف سخت سزا کی قانون سازی ہونی چاہیے ، اور آپ بر سر اقتدار آگئے تو ترجیحی بنیاد پر یہ مطلوب قانون سازی کر ائیں گے ؟ آپ ایسی قانون سازی کریں گے ؟ کہ اگر کوئی منتخب نمائندہ حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے ، انتظامی اختیارات سے تجاوز کرتا ہے ، رشوت اورکمیشن کھا تا ہے اور کسی بھی طرح کی کرپشن کا مر تکب ہوتا ہے تو اس کے خلاف سخت اور فوری احتسابی کاروائی ہونی چاہپیے ؟ ا س کے انسداد سے متعلق جو قوانین موجود ہیں ، ان کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے آپ عملاً کیا کریں گے ؟ اور اس ضمن میں نئی قانون سازی کے لیے آ پ کتنے پر عز م ہیں ؟ آپ یہ وعدہ کرتے ہیں کہ جب تک کسی سیاست دان اور صاحب حیثیت شہری کا قرض وصول نہیں کیا جاتا، مکان بنانے اور چھوٹے چھوٹے کاروبار کے لیے انتہائی مجبوری میں لیے گئے قرضوں کی بھی ری شیڈولنگ کر دی جائے گی ؟ کسی کا گھر قر قی ہو گا نہ کاروبار دیوالیہ تاوقتیکہ کروڑوں اربو ں کے ایک ایک قرضے کو واپسی نہیں ہوتی۔ جو اراکین منتخب ہو کر اسمبلیوں کے لیے منتخب ہو گئے کیا آ پ ان میں سے ان اراکین کی ڈگریوں کی تصدیق دوبارہ کرائیں گے ؟ جو پہلے تو جعلی ڈگری ہولڈر مشہور ہوئے پھر انتخابی امیدوار بن گئے ،میاں صاحب اور خان صاحب بتائیں کہ آپ تمام شہریوں پر آئین و قانون کے یکساں اطلاق کے لیے کیا سوچ رکھتے ہیں اور اس کو عمل میں ڈھالنے کے لیے آپ کے پاس کیا منصوبہ ہے ؟ ہر دو میں سے جو ان سوالوں کے بہتر جواب دے پائے گا ، یقین کریں وہ زیادہ سے زیادہ ووٹ لے گا اور فقیر کو بھی دعائیں دے گا ۔
تازہ ترین