جنرل پرویز مشرف صاحب نے فی الحال مکافات عمل کے مراحل نہیں دیکھے اللہ پاک کسی دشمن کو بھی وہ دن نہ دکھائے کہ اس کا کیا دھرا اس کے سامنے آجائے۔ ویسے ایک بات ہے کہ جنرل صاحب نے اتنا کچھ بو دیا ہے کہ اب اکیلے کاٹنا ان کے بس میں نہیں رہا، لیکن مکافات عمل جب شروع ہوگا تب دیکھیں گے فی الحال تو وہ جب چاہتے ہیں سگار سلگا لیتے ہیں، کافی بنوا لیتے ہیں، جوس پیتے ہیں۔ جنرل راشد قریشی سے لے کر ڈاکٹر امجد اور عتیقہ اوڈھو تک سارے پارٹی رہنماؤں سے مل سکتے ہیں، ان سب کے علاوہ ان کی پارٹی میں دو ماہرین قانون بھی ہیں بیرسٹر سیف اور جناب احمد رضا قصوری، نعیم بخاری صاحب پارٹی کا ریزرو، سرمایہ ہیں، مجھے اندازہ ہے کہ اگر حالات کو سنگین بھی کردیا جائے تو پرویز مشرف ڈرتے ورتے نہیں ہیں، کمانڈو ہیں، کارگل کے ہیرو ہیں وہ کوئی عام آدمی نہیں کہ گھبرا جائیں اسلام آباد کی عدالت سے بھی وہ بھاگے نہیں تھے۔ انہیں کسی نے گرفتار ہی نہیں کیا تو وہ کیا کرتے ویسے وہ اگر بھاگنا بھی چاہتے تو بھاگ کر کہاں جاتے، بیسیوں پہر ے ہیں ان پر، درجنوں قسم کے خفیہ والے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں، جیل کا عملہ، اسلام آباد پولیس، رینجرز، ملیشیاء ایئرگنیں، بکتر بند گاڑیاں، ایسے میں کون بھاگ سکتا ہے۔سید ضمیر جعفری نے کہا تھا کہ انسان کتنا ہی بھاگ لے خود سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ میری اطلاعات کے مطابق جنرل پرویز مشرف اپنے آپ سے بھاگنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ایسا خیال ان کے اندر تب کروٹ لیتا ہے جب وہ قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا جائزہ لیتے ہیں تو انہیں پارلیمینٹ کا وہ جوائنٹ سیشن یاد آجاتا ہے جب انہوں نے عوام کے منتخب نمائندوں کو مکّے دکھائے تھے، وہ اب بھی ہمت کرکے بازو اٹھا تو لیتے ہیں نحیف سی آواز میں یہ بھی کہہ لیتے ہیں کہ ”میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں“ لیکن جب ان کے اندر کا سید زادہ، انہیں باور کراتا ہے کہ ”گئے وہ دن جب خلیل میاں فاختائیں اڑاتے تھے“ تو جنرل صاحب وہیں کھڑے کھڑے اندر سے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ وہ خود سے بھاگنا چاہتے ہیں مگر بھاگ نہیں سکتے، کون کہتا ہے وہ عدالت سے بھاگے تھے، وہ کبھی نہیں بھاگیں گے۔ جنرل صاحب کو اندازہ ہے کہ ان کی عافیت چک شہزاد والے اسی فارم ہاؤس میں ہے جسے خوبصورت جیل قرار دیا گیا ہے۔ اگر انہوں نے اس سے بھاگ نکلنے کی کوشش کی تو عوام انہیں لہو لہان کردیں گے، اور اگر عوام نے منہ نہ لگایا تو تھوڑے فاصلے پر بیٹھے لال مسجد والے تکہ بوٹی کردیں گے، اگر لال مسجد والوں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے میاں محمد نواز شریف کی طرح ذاتی حیثیت میں معاف کر بھی دیا، تو عافیہ صدیقی کی والدہ اور بہن پرویز مشرف کا منہ نوچ لیں گی، معاف کردینے والی باتیں بھی محض مفروضے ہیں کیا خبر کوئی معاف نہ کرے ایسے میں بکھرے پڑے سارے متاثرہ لوگ مختلف ہجوم سے سمیٹ کر قوم بن گئے تو پھر جنرل صاحب کو مکافات عمل کا اندازہ ہونا شروع ہوجائے گا!
کالے کوٹ والے لال آندھی بن کر راولپنڈی اسلام آباد کی عدالتوں میں پرویز مشرف صاحب کو تلاش کرتے پھرتے ہیں، وہ کہاں بھاگ سکتے ہیں انہیں کون بھاگنے دے گا، الیکشن کمیشن اگر جنرل صاحب کو نااہل قرار نہ دیتا تو عوام کی عدالت میں انہوں نے چاروں شانے چت تو ہونا ہی تھا بلاوجہ انتخابی مقابلے سے روک کر انہیں وقتی مظلوم بنایا گیا ہے۔ خبر ہے کہ جنرل صاحب کے ضامن انہیں ملک سے باہر لے جانے کی کوشش میں ہیں ایسا کرنا بھی جناب عالی مرتبت کے مفاد میں اس لئے نہیں ہے کہ طالبان پوری دنیا میں موجود ہیں وہ کہیں بھی دبوچ لیں گے۔ اکبر بگٹی کے خاندان والوں نے جنرل صاحب کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے۔ بیرروزگاری کا زمانہ ہے لوگ اپنے بچے فروخت کررہے ہیں ایسے میں کون ایسا ہوگا جو پرویز مشرف کے تعاقب میں نہیں ہوگا۔ ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ بھی ”مسنگ پرسن“ کے لواحقین کو لے کر اسلام آباد میں مورچہ زن ہیں، کیا وہ جنرل صاحب کو بچ کے جانے دیں گی، ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والوں کے بچے کھچے لوگ بھی جان ہتھیلی پر لئے جنرل صاحب کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ ایٹمی سائنس دانوں کا معاملہ اور بھی دہلا دینے والا ہے۔
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خاموش آہیں، پرویز مشرف کو ریزہ ریزہ کردیں گی، ڈاکٹر خان کے دیگر ساتھی ڈاکٹر فاروق خان، ڈاکٹر نذیر، میجر اسلام، بریگیڈیئر تاجور اور بریگیڈیئر سجاول ان کے ساتھ ڈی بریفنگ کے نام پر کتنا توہین آمیز سلوک ہوا اور اس عرصے میں ان کے گھروالوں پر کیا گزری یہ بہت طویل داستان ہے۔
ڈاکٹر نذیر کے والدین کو میں نے کئی بار اسلام آباد پارلیمینٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی بینرز اٹھائے دیکھا تھا جن پر لکھا تھا ”ہمارے بیٹے کا قصور تو بتاؤ“ اور ان کی بیگم محترمہ طاہرہ کے بینر پر لکھا تھا میرا شوہر کہاں ہے؟ میجر اسلام الحق کے بڑے بھائی جنہوں نے ان کی پرورش کی تھی وہ بھائی کے انتظار میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔
ڈاکٹر فاروق خان کے گھر والوں کو اس قدر خوفزدہ کردیا گیا تھا کہ کم و بیش ڈیڑھ ماہ تک ان کے گھر والوں نے کسی سے ذکر نہ کیا کہ وہ گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ وہ آج بھی گھر میں نظر بند ہیں چوبیس خفیہ والے دن رات ان کے گھر پر نظر رکھے ہوئے ہیں اسی حالت میں فاروق صاحب نے اپنے بچوں کی شادیاں کیں، بیٹی کی رخصتی کے دوران دلاسہ دیتے وقت بھی خفیہ والا درمیان میں موجود تھا، میں جب کبھی کئی جتن کرکے ان سے ملنے جاتا ہوں تو ڈرائنگ روم میں خدمات کے صلے میں ملنے والے لش پش کرتے تمغے دیکھ کر سوچتا ہوں، یہ ہیں پاکستان کے محسن، جنہیں مجرم بنا دیا گیا ہے، کیا یہ سائنسدان یا ان کے لواحقین چاہیں کہ جنرل پرویز مشرف کونکل جانے کے لئے محفوظ راستہ دیا جائے، جس طرح لال مسجد کے رشید غازی مانگتے رہے اور نہ دیا گیا تھا۔ کیا جنرل صاحب برقعہ اوڑھ کر بھاگ جانا پسند کریں گے جس طرح سازش کرکے مولانا عزیز عبداللہ کو پہنا کر ٹی وی پر لایا گیا تھا لیکن پرویز مشرف ایسا نہیں کریں گے کیونکہ وہ ڈرتے ورتے بالکل بھی نہیں۔