پورے ملک میں بجلی کے معاملات سے نمٹنے کے لئے واپڈا نامی ایک محکمہ ہوا کرتا تھا بعد ازاں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی بنا دی گئی۔ پھر شہر شہر اور ڈویژن کی سطح پر پاور کمپنیاں اور پھر چوں چوں کا مربہ۔ پورے ملک میں نہ ٹیرف ایک جیسا رہا اور نہ یکساں پاور سپلائی رہی۔ باقی رہی تو فقط مہنگی بجلی، لوڈ شیڈنگ، شور وغل اور الزام تراشیاں۔ پاکستان میں ہر طرح کے ماہرین موجود ہیں۔ وطنِ عزیز ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے۔ بجلی ہی کیا ہم تمام اجناس میں خود کفیل ہو سکتے ہیں مگر شاید پالیسی سازوں کے اخلاص میں کمی ہے یا پھر درونِ خانہ کچھ اور کہانی ہے کہ ہم سوچتے کچھ اور ہیں اور ہوتا کچھ اور ہے۔ ایک زمانے سے ہم سستی بجلی، سستی بجلی کا راگ سنتے آرہے ہیں مگر جب بجلی پیدا کرنے کے عملی اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں تو پھر وہی فرنس آئل کے بجلی گھر لگاتے ہیں اور وہ بھی پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعے۔ حیرت یہ ہے کہ ہم نہ تو مستقبل کے لئے کوئی پلاننگ کرتے ہیں اور نہ ہی ماضی سے کوئی سبق سیکھتے ہیں۔ ماضی کی بات کی جائے تو 1925میں لاہور سے 90کلومیٹر کے فاصلے پر رینالہ خورد کے مقام پر پہلا ہائیڈرو پاور اسٹیشن لگایا گیا۔ لگانے والے کا نام تھا گنگارام۔ یہ وہ صاحب تھے جو نہ تو شہنشاہِ ہند تھے، نہ والئی پنجاب اور نہ کسی سلطنت کے راجہ مگر صاحبِ ثروت ہونے کے ساتھ ساتھ انسان دوست اور ترقی پسند سوشل ورکر تھے۔ سر گنگا رام نے فلاحِ عامہ کے جو متعدد منصوبے لگائے اُن میں ایک یہ پاور ہاؤس بھی ہے جو نہر لوئر باری دوآب کے چلتے پانی پر لگایا گیا تھا۔ نہر کے چلتے پانی سے ٹربائینز چلائی جاتی ہیں جن سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ یہ پاور ہائوس آج بھی مین گرڈ اسٹیشن میں ایک میگا واٹ بجلی شامل کر رہا ہے۔ مجھے اپنے لڑکپن میں یہ پاور ہائوس دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں کسی پل پر کھڑا ہوں اور نیچے سے تیز پانی گزر رہا ہے۔ انچارج پاور ہاؤس نے بتایا کہ پانی کے بہاؤ سے ٹربائینز چلائی جاتی ہیں اور پل کے اوپر لگی موٹروں کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اس موقع پر میں نے انچارج صاحب سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ جو پانی ٹربائن سے گزرتا ہے، کیا اس پانی سے بجلی نکل جاتی ہے اور آگے جانے والا پانی بجلی سے خالی ہو جاتا ہے؟ میرا سوال سن کر وہاں موجود تمام افراد ہنس پڑے تاہم انچارج نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ نہیں پانی کا کام تو صرف ٹربائن چلانا ہے، ہم کوئی پانی سے بجلی تو نہیں نکالتے جو آگے جانے والا پانی بجلی سے خالی ہو جاتا ہے۔ بات پوری ہوتے ہی میں نے اگلا سوال جڑ دیا کہ پھر ہم تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اِس طرح کے مزید پاور ہائوس کیوں نہیں بنا لیتے تاکہ زیادہ بجلی پیدا ہو؟ ماحول کو چپ لگ گئی تاہم کچھ فاصلے سے ایک آواز آئی کہ ’’اب گنگارام کہاں سے لائیں‘‘۔ جی ہاں اب نہ گنگارام دنیا میں واپس آئیں گے اور نہ سستی بجلی پیدا کرنے کے اس طرح کے منصوبے دوبارہ لگیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ آج بھی یہاں پیدا کی جانے والی بجلی کی لاگت ایک روپے فی کلو واٹ سے کم ہے۔ اگر صرف پنجاب کی بات کی جائے تو یہاں دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے اور جس نہر پر یہ پاور ہاؤس لگایا گیا ہے، اگر اِس کی ہی بات کی جائے تو اس کی طوالت 201کلومیٹر ہے مگر اِس نہر پر کوئی دوسرا پاور ہاؤس تعمیر نہیں کیا جا سکا۔بلاشبہ ہمارے ہاں بھی ایسے ایسے صاحبانِ ثروت موجود ہیں جو پل بھر میں اس طرح کے پاور ہائوس کھڑے کر سکتے ہیں مگر افسوس کہ اِس طرف کسی کا دھیان نہیں ہے۔ گویا پنجاب کا پورا نہری نظام سستی بجلی پیدا کرنے کے لئے دعوت عام ہے۔ اب پورے پاکستان پر ایک نظر دوڑائیں خیبرپختونخوا کے دریاؤں کو دیکھیے جو قدرتی طور پر اونچائی سے اترائی کی طرف نہایت تیز رفتاری سے بہتے ہیں۔ اگرچہ دریائے سوات پر دس دس کلوواٹ کے دو پاور ہائوس لگے ہیں مگر کیا ان میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا؟ ہم ہر بار کالا یا سفید باغ جیسے ڈیموں کی تعمیر پر سیاست سیاست کھیل کر تھک ہار جاتے ہیں مگر مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے۔ ہم کیوں نہیں KPKکے بہتے ہوئے دریاؤں پر چھوٹے چھوٹے پاور ہاؤسز تعمیر کر کے سستی بجلی پیدا کرتے؟ یہی نہیں اور اوپر چلے جائیے گلگت بلتستان کے گلیشیرز اور ان کا پگھلتا ہوا پانی جو ہم سارے کا سارا ضائع کر دیتے ہیں۔ یہ پانی بھی کوئی ایک جگہ کھڑا نہیں رہتا بلکہ نیچے کی طرف آ رہا ہے ہم کیوں نہیں پانی کی ان گزرگاہوں پر چھوٹے چھوٹے پاور ہاؤسز لگا کر بجلی پیدا کرتے؟ ہر سال کی طرح اس سال بھی سیلابی بارشیں ہوئیں، ہم اس پانی سے بھی سستی بجلی پیدا نہیں کر سکے۔ فرنس آئل یا دیگر مہنگے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے بجائے اگر پرائیویٹ صنعتکاروں کو ملک بھر کے دریاؤں و نہروں پر چھوٹے چھوٹے پاور ہائوس لگانے کی اجازت دی جائے تو ایک روپے سے بھی کم لاگت پر حاصل ہونے والی بجلی اگر قومی گرڈ اسٹیشن کو سو فیصد منافع پر بھی بیچی جائے تو پھر بھی عام صارف کو نہایت سستی اور وافر بجلی دستیاب ہو سکتی ہے مگر شاید ہم سستی بجلی بنانا ہی نہیں چاہتے۔