• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اصل نام تو کچھ اور تھا لیکن مقامی لوگ اُسے ’’دو تلواروں والا‘‘ کہتے تھے۔ ایک اساطیری جنگجو اٹھارہ برس کی عمر میں جس نے اپنے کمزور قبیلے کے تمام مقبوضہ علاقے واگزار کرا لئے تھے۔ میں نے اُس سے پوچھا، زندگی میں کبھی اُسے شکست بھی ہوئی؟ وہ خفیف سا ہو کر ہنس پڑا پھر کچھ دیر سوچتا رہا۔ اُس کا لڑکپن دشمن کے گھوڑوں کی ٹاپ سنتے گزرا۔ دوسرے بچّے چھپ جاتے مگر وہ انہماک سے سپاہیوں کو لڑتے ہوئے دیکھتا۔ ایک جنگی جینئس، تلوار کا ہر ممکنہ وار جس کے دماغ پہ نقش تھا، اچانک اُس نے سوچا، ہر جنگجو کی آدھی توانائی اپنی ڈھال اُٹھانے اور اُس پہ دشمن کا وار روکنے میں ضائع ہو رہی تھی۔ دونوں ہاتھ یکساں استعمال کرنے والے جنگجو نوجوان نے ایک نئی تکنیک وضع کی۔ اُس نے ڈھال رکھ کے دو تلواریں اُٹھا لیں۔ وہ دشمن کا وار تلوار ہی پہ روکتا یا بجلی کی رفتار سے حرکت کرتے ہوئے بچ نکلتا۔ اُس کے بعد دو تلواریں دشمن چیر کے رکھ دیتیں۔ اُس کے جسم میں بجلی بھری تھی۔ پہلی ہی جنگ میں اُس نے دشمن کا تختہ اُلٹ کے رکھ دیا۔ وہ جنگوں پہ جنگیں لڑتا رہا۔ خطے میں اُس کی دہشت پھیل چکی تھی۔

اُنہی دنوں اُس کی شادی کردی گئی۔ اُس قبیلے میں عورت سے نرمی برتنا سخت ناپسندیدہ تھا، پھر اُس کی بیوی کو تو اُس سے اور بھی زیادہ ڈرنا چاہئے تھا۔ وہ اُن کا سپہ سالار تھا۔ نہ جانے کیوں مگر جب وہ اُسے جھڑکتا تو اُسے اُس کی آنکھوں میں بغاوت نظر آتی۔ یہی وہ دن تھے، جب اُس کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ کئی ماہ گزر گئے، اُس نے کبھی اُسے چھوا تک نہیں۔ ایک شام تھکا ہارا جنگجو سو رہا تھا۔ اچانک ایک نامانوس لمس سے اُس کی آنکھ کھلی۔ کسی نے اُس کی ناک پکڑ رکھی تھی۔ دشمن؟ دو تلواروں والا ہڑبڑا کر اُٹھا لیکن اُس کی بیٹی نے اُس کی ناک نہ چھوڑی۔ پھر اُس نے اپنا منہ اپنے باپ کے منہ سے جوڑ لیا۔ دو تلواروں والا کانپ اُٹھا۔ چھوٹی سی گڈی کے منہ سے اُسے ایک دلفریب مہک آئی۔ اُس کے لمس سے ایک عجیب سی مسرت اُس کے ر گ وپے میں اُترتی چلی جا رہی تھی۔ زندگی میں پہلی بار اُس کے پتھریلے دل میں ایک کونپل پھوٹ پڑی۔ ہڑبڑائے ہوئے باپ نے بےخیالی میں اپنی ایک انگلی اُس کے دو ننھے دانتوں پہ رکھ دی اور پھرچیخ اٹھا۔ ننھی پری نے خود کو نظر انداز کئے جانے کا بدلہ لے لیا تھا۔ پھر وہ اُس کے کان پکڑ کر بستر پہ کھڑی ہو گئی۔ کافی دیر وہ اپنے سنگدل باپ سے کھیلتی رہی۔ اُس پتھریلی زمین میں اُس نے اپنے پیار کے بیج بو ڈالے۔ پھر دفعتاً اُسے بھوک لگ گئی۔ اُس کے ساتھ ہی اُس نے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیں۔ دو تلواروں والے نے اُسے لبھانے کی کوشش کی تو روتی ہوئی غضبناک گڑیا نے پے در پے کئی تھپڑ اُسے رسید کر ڈالے۔ حیرت زدہ سپہ سالار پٹتا رہا۔ اُس کی ذہین بیوی جان چکی تھی کہ پتھر میں جونک لگ گئی۔ یہ حساب بےباک کرنے کا وقت تھا۔چند گھنٹے بعد دو تلواروں والے نے اپنے قبائلی مہمانوں کے سامنے اپنی بیوی کو سختی سے ڈانٹا۔ وہ اِسی انتظار میں تھی۔ وہ بپھر کے اُٹھی، چیخ کر اُس نے کہا ’’دو تلواروں والے، میں تیری باندی تو نہیں۔ جا کسی اور سے شادی کرلے‘‘۔ اُس نے اپنی بیٹی اٹھائی اور باہر کی طرف لپکی۔ دل کانپ اُٹھے۔ خطے کے سب سے بڑے جنگجو کی شان میں گستاخی؟ بےیقینی سے بھرپور نگاہیں دوتلواروں والے پر مرکوز تھیں، جو سکتے کے عالم میں کھڑا تھا۔ پھر تلوار کھینچ کر ننگے پائوں وہ اپنی بیوی کی طرف بھاگا، بےخوفی سے چلتی ہوئی جو حویلی سے باہر نکل رہی تھی۔ ماں سے چمٹی ہوئی اُس کی بیٹی پیچھے منہ کرکے اپنے باپ کو لپکتا دیکھ رہی تھی۔ جب وہ اپنی بیوی کے قریب پہنچا تو اُسے ٹھوکر لگی اور وہ گرتے گرتے بچا۔ ننھی گڑیا اُس پہ قہقہہ لگا کر ہنسی۔ وہ سمجھی اُس کا باپ اُسے ہنسانے کے لئے کرتب کر رہا ہے۔ دوتلواروں والے کے دماغ میں اُبلتے آتش فشاں پر کچھ شبنم برسی۔

پہلی دفعہ اُسے خیال آیا کہ اگر اُسے میں نے مار دیا تو گڑیا روپڑے گی۔ خون اُگلتی ماں سے چھین کر میں اُسے چپ کیسے کرائوں گا؟ اُسے یاد آیا کہ اُس گڈی کو جب بھوک لگی تھی تو کیسے اُس نے آنکھیں پھیر کر اپنے باپ کو پیٹا اور لپک کر ماں کے پاس چلی گئی تھی۔ اُس کی بیوی تیز تیز چلتی چلی جا رہی تھی۔ حیرت سے وہ سوچنے لگا کہ ایک کمزور لڑکی کی یہ مجال۔ ذرا اُس کی آنکھ میں خوف نہیں۔ دوتلواروں والا چلتا رہا، سوچتا رہا۔ اُسے حیرت ہوئی کہ کوئی ایسا طریقہ موجود نہیں تھا، جس میں بیٹی کو تکلیف دیے بغیر وہ اپنی بیوی کو تکلیف دے سکتا۔ تھک ہار کے وہ سوچنے لگا کہ جب اُس کی بیٹی بڑی ہو جائے گی تو اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ ملا کر وہ اُسے سزا دے گا۔ پھر اُسے دوبارہ یادآیا کہ جب اُس کی بیٹی کو بھوک لگ گئی تھی تو کیسے اُس نے اپنے باپ کو تھپڑ رسید کیے اور اپنی ماں کی طرف لپک گئی تھی؟ وہ سوچنے لگا کہ بیٹیاں تو ہوتی ہی ماں کی ہیں۔ ہر وقت تو وہ ماں کے پاس ہو گی۔ اُسے سمجھ آگئی کہ وہ چاہے تواُس کی بیٹی کو اُس کے خلاف گمراہ کر سکتی ہے۔ زندگی میں پہلی بار سپہ سالار نے ہتھیار ڈالنے کا سوچا۔ پہلی بار اُسے محسوس ہوا کہ ہر جنگ جیتنے کے لئے نہیں ہوتی۔ ٹھنڈی زمین پہ ننگے پائوں چلتے چلتے اُس کے پائوں برف بن چکے تھے۔ اُس نے اپنی بیوی کو آواز دے کر بتایا کہ آگے جانا خطرناک ہے۔ اُس کی بیوی نے اُس کی شکست خوردہ آواز سنی۔ وہ اپنی مسکراہٹ ضبط کر رہی تھی۔ پھر اُس نے اپنے شوہر کو ننگے پائوں دیکھا تو اپنی گلابی جراب اتار کر اُسے پہننے کو دی۔

بستی والوں کو یقین تھا کہ دو تلواروں والا اپنی بیوی کا سر لے کر آئے گا۔ ہمیشہ وہ دشمن کا سرلاتا تھا۔ حیرت سے اُنہوں نے دیکھا، سپہ سالار کے ایک ہاتھ میں اُس کی بیٹی تھی۔ دوسرے میں کچھ جنگلی پھول۔ دو تلواروں والے نے بستی والوں کو اپنی طرف گھورتے دیکھا تو رک گیا۔ پھر یکایک اُسے طیش آیا۔ اُس نے دونوں تلواریں پھینک دیں۔ اُس نے کہا:جائو نیا سالار چن لو۔ بستی والو، میں ایک بیٹی کا باپ ہوں۔ بیٹیوں کے باپ زیادہ دیر نہیں لڑ سکتے۔ ڈرتے ڈرتے ایک نوجوان نے کہا، سپہ سالار تو نے گلابی جراب پہن رکھی ہے۔ ’’گلابی جراب؟‘‘ دو تلواروں والے نے کھسیا کر اپنے پائوں کی طرف دیکھا۔ پھر ایک طویل سانس لے کر اُس نے کہا:گلابی جراب تو مرد نے اُس دن ہی پہن لی تھی، جب پہلی عورت پیدا ہوئی تھی۔

تازہ ترین