• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی میں پی ٹی آئی کے استعفے قبول نہیں کئے گئے، ایک یا زیادہ صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے سے سینیٹ الیکشن پر اثر نہیں پڑے گا، ماہرین

لاہور (مقصود اعوان /عمران احسان ) حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سینیٹ میں بالادستی کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی، جے یو آئی سمیت 11جماعتوں پر مشتمل نئے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم نے اگلے سال مارچ 2021 سے قبل پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کے لئے آخری مرحلے میں اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے دے کر سینٹ انتخابات رکوانے کے لئے حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کردیا ۔

سیاسی و قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں حکومت نے تحریک انصاف کے استعفے قبول نہیں کئے تھے۔

ایک یا زیادہ صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے سے سینٹ الیکشن پر اثر نہیں پڑےگا۔موجودہ سینٹ میں اپوزیشن کو سادہ اکثریت حاصل ہے اور موجودہ اسمبلیوں سے سینٹ انتخابات کرانے کی صورت میں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی سینٹ میں بالادستی قائم ہو جائے گی، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایک یا زیادہ اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں تو بھی سینٹ کے الیکشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

12 مارچ 2021 سے قبل جو 53 سینیٹرز اپنی چھ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو رہے ہیں ان میں زیادہ کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے ان میں مسلم لیگ (ن) کے سب سے زیادہ 17 ، پیپلز پار ٹی کے 8، جے یو آئی کے 2، اے این پی، جماعت اسلامی، پختونخوا ہ ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی کا ایک ایک ، آزاد5، نیشنل پارٹی اور بی اے پی مینگل کے دو دو سینیٹرز کے علاوہ پی ٹی آئی کے 8 اور ایم کیو ایم کے 4 اور دیگر جماعتوں کے 3 سینیٹرز شامل ہیں۔

2018کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے ممبران کا قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی، کے پی کے اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں اضافہ ہوا ہے اور موجودہ اسمبلیوں سے سینٹ کی خالی نشستوں پر انتخاب کا فائدہ حکومتی اتحاد کو ہوگا اس حوالے سے جنگ کو سینٹ انتخابات سے قبل اپوزیشن جماعتوں کے اسمبلیوں سے استعفوں یا اسمبلیاں ٹوٹنے کی صورت میں سینٹ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، کے بارے میں سوالوں پر سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد، صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب غلام اسرار خان اور انتخابی قوانین کے ماہر رانا محمد اسلم ایڈووکیٹ نے جنگ کو بتایا کہ سینٹ ایک مستقل پارلیمان ہے سینٹ میں چاروں صوبوں کی برابر، برابر(یکساں) نمائندگی ہے ہر صوبے سے سینٹ کی 23،23 نشستوں کے علاوہ وفاقی دارا لحکومت کی، فاٹا کی 8سیٹیں ہیں اس طرح سینٹ کے کل اراکین کی تعداد 104 ہے اور ہر تین سال بعد سینٹ کے آدھے اراکین 6 سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں۔

ان کی جگہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں اپنے اپنے صوبوں سے نئے سینیٹرز کا چنائو کرکے انہیں سینٹ نمائندگی کے لئے بھیجتی ہیں۔ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں سینٹ کے الیکٹرول کالج ہیں ان اسمبلیوں کے اراکین سینٹ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہوتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے اعلیٰ افسران کے مطابق الیکشن کمیشن کاکام آئین اور قانون کے مطابق شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرانا ہے۔ انتخابی قوانین کے مطابق اگر سینٹ کی کوئی بھی خالی نشست ہوتی ہے ان پر 60 دنوں کے اندر ضمنی انتخاب لازمی ہے۔ ایک یا زیادہ اراکین کے مستعفی ہونے، نااہل ہونے یا وفات پانے کی صورت میں خالی ہونے والی نشست پر انتخاب ہوگا اور متعلقہ اسمبلی کے اراکین خالی نشستوں پر ووٹ ڈالنے کے اہل ہوتے ہیں اگر ایک یا زیادہ اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں تو بھی سینٹ کے الیکشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

سینٹ کے آدھے اراکین نئے سینیٹرز کے چنائو تک کام کر تے رہیں گے۔ موجودہ صورت حال میں کسی اسمبلی یا اسمبلیوں سے استعفے آنے کی صورت میں الیکشن کمیشن کے لئے قومی یا صوبائی اسمبلی کی خالی نشست پر 60 دنوں میں ضمنی انتخاب کرانا لازمی ہے اس کے بعد کامیاب اراکین اسمبلی سینٹ کے انتخاب میں حصہ لے سکیں گے۔

قومی اور صوبائی اسمبلیو ں کے بیک وقت ٹوٹنے کی صورت میں سینٹ کے انتخابات اسمبلیوں کے نئےانتخابات کے بعد تک موخر ہو جائیں گے اور نئی اسمبلیاں نئے سینیٹرز کا چنائو کریں گی جو موجودہ اسمبلیوں کے ذریعےسینٹ کی خالی سیٹوں پر ہونے والے الیکشن کے نتائج سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں تا ہم اس کا دارومدار نئے انتخابات کے نتائج پر ہوگا۔سپریم کورٹ بار کے صدر سید قلب حسن نے کہا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات سےپہلے اگر حزب اختلاف مستعفی ہوجاتی ہے تو قانون میں کوئی ایسا میکنزم موجود نہیں کہ انتخابات ملتوی کردئیے جائیں ۔

تاہم یہ الیکشن کمیشن کاا ستحقاق ہے کہ وہ شفاف انتخاب کروانے کے لئے آزادانتخابی ماحول کے تقاضے پورے کرے ۔اگر بڑا حلقہ انتخاب ہی خالی ہو اور الیکشن کمیشن انتخابات کروادے تو اس سے ا نتخاب کی شفافیت اورآزادی پر بہت بڑا سوال کھڑا ہوجائیگا۔عالمی سطح پر اسے دھاندلی قرار دیا اور سمجھا جاتا ہے۔ماضی میں جب تحریک انصاف نے استعفے دئیے تھے تو حکومت نے منظور نہ کئے تھے کہ اس سےحکومت پر بہت دبائو آتا ہے۔حزب اختلاف نے استعفے دئیے اور حکومت نےمنظور کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کے ساتھ ملی بھگت کرکے سینیٹ کے انتخابات کروادئیے تو یہ متنازعہ ترین انتخابات ہوں گے جن کو کوئی بھی تسلیم نہ کریگا۔

موجودہ حکومت کی پالیسیوں نے عوام کاکباڑہ کردیا ہے جس کے بعد متحدہ حزب اختلاف کو اجتماعی استعفے دے دینے چاہئیں۔سابق وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہاہے کہ اگر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سندھ اسمبلی تحلیل کردیتے ہیں تو سینیٹ الیکشن لازمی طور پر ملتوی ہوجائیگا جب تک کہ نئی اسمبلی معرض وجود میں نہیں آجاتی ہے۔

اگر مراد علی شاہ اسمبلی تحلیل نہیں کرتے اورحزب اختلاف کے اجتماعی استعفوں کے بعد ایک تہائی یا دو تہائی الیکٹورل کالج خالی ہوجاتا ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 268 کے تحت ابہام کی وضاحت کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔ پنجاب بار کے ارکان سینئر ماہر قانون اشفاق بھلر اوراور سینئر ماہر قانون عبداللہ ملک نے کہاوفاقی حکومت الیکشن کمیشن کو لازمی انتخاب کروانے کے لئے تجویز اور ہدایت دینے کی مجاز نہیں ہے ۔

اگر الیکشن کمیشن کسی صورت حکومتی تحریری یا زبانی تجویز کی پیروی کرتے ہوئے خالی نشستوں کی بنیاد پر لازمی انتخاب کروانے کا آپشن استعمال کرتی ہے تو اسکی غیرجانبداری پر بڑا سوال لگ جائیگا۔دوسری طرف ریاست پر بھی دبائو آجائیگا کہ یہ کیسا انتخاب ہے جس میں صرف حکومت اور اسکے اتحادی ووٹ ڈالیں گے اور حزب اختلاف موجود نہیں۔

تازہ ترین