• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:چوہدری ساجد علی۔ ۔۔مانچسٹر
اک نیا دور جنم لیتا ہے ایک تہذیب فنا ہوتی ہے یہ تو فطرت کا دستور ہے کہ بقا، فنا سے جنم لیتی ہے جو باقی رہنا چاہے اسے فانی ہونا پڑتا ہے۔ شب ظلمت میں روشنی کی ہلکی سے امید دلانے والے بے شمار ستارے جب چراغ کی آخری لو کی طرح ٹمٹما کر فنا ہو جاتے ہیں تو خورشید جنم لیتا ہے جو سارے عالم کو اپنی کرنوں سے اجالا دیتا ہے، تیرگیوں کے پردے پھٹتے ہیں تو سحر کا شبنمی چہرہ دکھائی دیتا ہے، ایک ننھا سا بیج مٹی کے گھپ اندھیروں میں فنا کی چادر اوڑھ کر سو جاتا ہے تو ایک گھنا درخت بن کر زمین کے سینے پر سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے جو راستہ چلتے مسافروں پر دھوپ کے برسنے والے بے رحم تیروں کے سامنے اپنی ٹھنڈی چھاؤں کی ڈھال رکھ دیتا ہے، تہذیبوں کا گھن چکر بھی ایسا ہی ہے، ایک تہذیب فنا ہوتی ہے تو اس کے بطن سے ایک اور تہذیب جنم لیتی ہے، انسان جب پیدا ہوا تو اسے ایک راہ دکھائی گئی اور کہا گیا کہ زندگی کے جس شعبے میں بھی رہنا تو اسی راستے پہ گامزن رہنا، کامیابی تمہارا مقدر ہو گی، انسان نے اس نغمہ حق کو اپنا فطری حق قرار دے دیا، اوّل خلقت سے انسان اسی راستے پہ گامزن ہوا اور اپنے فطری حق ارتقاء کی منزلیں طے کرنا شروع کر دیں، فرد سے فرد مل کر ایک گروہ بنا، گروہوں سے قبیلے بنے، قبیلوں سے قوم پیدا ہوئی، قوموں سے ملت وجود میں آئی، اور ملتوں نے مل کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا کہ جس کی اکائی بھی حضرت انسان تھا اور مرکز بھی یہی،اب انسان نے اپنی مرکزیت کے جوہر دکھانا شروع کیے، غاروں اور جنگلوں سے دریاؤں کی طرف نکلا، دریاؤں کے کنارے لہلہاتے کھیتوں سے آباد کیے، وہاں گھر بنائے، گھروں سے بستیاں بسائیں اور بستیوں سے شہر وجود میں آیا،فطرت میں موجود ارتقاء پسندی کے خلیوں نے انگڑائی لی اور انسانی جسم نیم عریانی سے نکل کر مخملیں لباس کی نرمی سے مانوس ہونے لگا، دریدہ دہنی کو چھوڑ کر سخنوری کو شعار بنا لیا اور ایک ایک لفظ میں معانی و مطالب کی کائناتیں سمیٹ دیں کہ اس کی شیریں بیانی و خوش الحانی پہ کائنات رقص کرنے لگی، انسان نے اپنی اقدار کو تراشنا چاہا تو ارادہِ ’’کن فیکون‘‘ کے اعجاز سے صحرا نشینوں کو سعادت مندوں کا امام واجب الاحترام بنا دیا، اس طرح ایک معاشرہ ترقی یافتہ شکل اختیار کرنے لگا اور جب معاشرے میں موجود افکار و نفسیاتی کردار مل کر سلجھے ہوئے اجتماعی رویوں کی ایک چادر پر بیٹھے تو اس اجتماع کی کوکھ سے ایک ایسے مولود نے جنم لیا کہ جسے تہذیب کا نام دیا جانے لگا، انسانی معاشرہ ثروت مند ہو گیا، تہذیبِ انسانی پروان چڑھنے لگی، انسان کی سلامتی کی ضمانت مستحکم ہو گئی اور انسان کے جغرافیائی اختلاف اور مزاجوں کے تنوع سے تہذیبیں بھی متنوع ہوتی چلی گئیں، انسان کی تمام قوتوں میں سے تہذیب ایک ایسی خاموش طاقت ہے کہ جس پر انسان کی فنا و بقاء انحصار رکھتی ہے. جس کے بل بوتے پہ ایک قوم، دوسری قوم کو ہمیشہ کے لئے صفحہِ عالم سے حرفِ غلط کی طرح مٹا سکتی ہے لیکن پھر! انسان فطرت سے منحرف ہونے لگا تو جنگ و جدال کا بازار گرم کر دیا اور اپنے حریف کو ہر طرح سے زیر کرنے کے درپے ہو گیا۔ اسی طرح ایک دوسرے کی تہذیب پہ ایسے زخم لگائے گئے کہ جو کافوری مرہم سے بھی اچھے نہیں ہونے والے،یوں تہذیب متاثر ہوئی اور اقدار انسانی متزلزل ہونے لگیں۔ اور جب اقدار زوال پذیر ہوتی ہیں تو انسانی آبادیاں کھنڈرات کا روپ دھار لیتی ہیں۔
تازہ ترین