• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بار بار ٹیلی وژن پر تصویر آرہی تھی کبھی کسی موچی کی، کبھی استاد کی اور کبھی کریانہ کی دکان والے کی مگر جب الیکشن کی سیٹیں دینے کا سوال پیدا ہوا تو ان کے گلے میں ہار پڑے جو پیسے والے اور بے شمار تو نامعلوم شخصیات تھیں۔ یہ ایک پارٹی کا احوال نہیں، بہت سی پارٹیوں نے تو یہ بھی گوارا نہیں کیا اور آزمودہ چہروں کو پھر میدان میں اتار دیا چاہے ان کے خلاف نیشنل پولیس فاؤنڈیشن کے مقدمات تھے اور چاہے وہ جیل جا چکے تھے یا پھر رینٹل پاور کے کیسز تھے۔ حالانکہ جب مجموعی طور پر دیکھو تو چار سو سیٹوں کے لئے ڈیڑھ ہزار لوگوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ کہا تو یہ جا رہا ہے کہ یہ الیکشن تبدیلی لائیں گے، اس دفعہ انقلاب کی جگہ تبدیلی کا لفظ استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیا مذاق ہے جب چہرے ہی نہیں بدلو گے، چہروں کے کرتوت بھی لوگوں کو معلوم ہوں گے تو پھر کیا تبدیلی اور کیا انقلاب۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں یہ نہ ہوتا تو شمالی وزیرستان میں 36/امیدوار کھڑے نہ ہوتے، یہ نہ ہوتا تو جانتے بوجھتے بہت سی خواتین عام سیٹوں پر الیکشن لڑنے کے لئے کھڑی نہ ہوتیں۔ ملک میں موجود فاشسٹ قوتیں بھی الیکشن کے لئے تیار نہ ہوتیں۔ جمہوریت کی روح ہی ہے جس نے گیارہ سالہ مارشل لا کی گردن مروڑ دی، جمہوریت کی روح ہی ہے جس کے باعث وہ جو کہتا تھا کہ میری یونیفارم تو میری کھال ہے۔ اس کو ملک چھوڑنا پڑا جمہوریت میں عوامی طاقت کے ساتھ پنپنے کا حوصلہ نہ ہوتا تو قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسے دانشوروں کو ایوب خان کا ساتھ نہ چھوڑنا پڑتا۔ جمہوریت کی روح کو عوام خوب سمجھتے ہیں بھٹو صاحب کے زمانے میں کھمبے کو بھی انہوں نے ٹکٹ دیا تو وہ جیت گیا۔ جمہوریت میں طاقت نہ ہوتی تو روس کی بڑی طاقت بکھر نہ جاتی، جمہوریت ہی ہے جس نے التحریر اسکوائر بنایا اور اب بھی اخوان المسلمین ذرا بھی رجعت پسند اقدام لیتے ہیں عوام فوراً اس کا نوٹس لیتے ہیں۔ یہ جمہوریت ہی ہے جس نے سربیا اور بوسنیا کو الگ الگ ملکوں کی طرز پر آزادی دی اور جمہوریت کی آواز ہی ہے جس کے باعث امریکی افواج اتنی مدت قیام کے بعد بھی اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ بندوق کے بل پر خاص کر افغان جیسی قوم کو زیر دست نہیں رکھا جا سکتا ہے۔
اس مرتبہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں اور عوام کو سمجھایا گیا ہے کہ بے ضرورت لمبے چوڑے بینر اور وال چاکنگ نہیں لگانی ہیں اس کے باوجود فافین کے سروے کے مطابق سیاسی جماعتوں نے 86 مرتبہ انتخابی پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے ابھی اور بہت سے اقدامات کو مدنظر رکھنا ہوگا جیسے تھرپارکر سے حاجیانی لاہو الیکشن میں کھڑی ہوئی ہے، بالکل بادام زری کی طرح جو کہ باجوڑ سے کھڑی ہوئی ہے، نصرت جہاں جو کہ پختونخوا سے کھڑی ہوئی ہے یوں تو خواتین الیکشن کے لئے پورے پاکستان میں کھڑی ہوئی ہیں بس فکر یہ ہے کہ کہیں دھمکیاں دیکر، اسکینڈل بنا کر یا کہیں کچھ رقم دیکر ان کو بٹھانے کی کوشش نہ کی جائے کہ ایک دفعہ تو ان میں بھی جان، بشریٰ اعتزاز اور ثمینہ گھرکی کی طرح آجائے، اعتماد ان جیسا ہو اور ان کے اقربا بھی اسی طرح ساتھ دیں تو فتح یقینی ہے۔ کیسا لطف آئے اگر براہ راست الیکشن لڑنے والی خواتین جیت کر ایوان میں پہنچ جائیں۔ کچھ خواتین کے نام نہ دیکھ کر حیرانی ہوئی ہے۔ اس مرتبہ نفیسہ شاہ، فوزیہ بہرام اور حنا ربانی کھر کے براہ راست الیکشن میں نام نہ دیکھ کر کچھ وسوسوں نے دل میں جگہ لی ہے۔ بالکل ایسے جیسے لمحہ بہ لمحہ اے این پی، ایم کیو ایم اور پی پی پی کے نمائندوں پر بے محابہ خودکش حملے دیکھے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر مالک تو گھر میں میٹنگ کر رہے تھے، ثناء اللہ زہری راستے میں تھے کہ ان کے اوپر حملہ کیا گیا۔ جوان بیٹا فوت ہوگیا اور بھائی بھی مارا گیا۔ حملہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جمہوریت اسلام کے منافی ہے اس لئے جو لوگ جمہوریت کے لئے لڑ رہے ہیں وہ کافر ہیں۔ تو پھر بولو جماعت اسلامی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کس لئے انتخاب لڑ رہے ہیں یہ وقت ہے کہ لوگ الیکشن کے دن باہر نکل کر، لبرل لوگوں سے تعاون کریں۔ میں جب گاؤں گاؤں جا کر عورتوں سے بات کرتی ہوں تو وہ کہتی ہیں پولنگ اسٹیشن پر سنا ہے حملے ہوں گے ان کے خدشات کو الیکشن امیدواروں کو دور کرنا چاہئے، امیدواروں کی رشتہ دار خواتین کو ان خوفزدہ خواتین کی ہمراہی کرنی چاہئے تاکہ جمہوریت دشمن لوگوں کے عزائم خاک میں مل جائیں۔
ایک بہت اہم مسئلہ یہ ہے کہ باقی اہم ممالک کی طرح ہمارے ملک میں پارٹیوں کے سربراہان اپنے منشور کے ساتھ ٹیلی ویژن پر آکر مذاکرہ کیوں نہیں کرتے۔ پتہ چلے کہ ان کے عہد نامے کو پورا کرنے کے لئے لائحہ عمل کیا ہوگا۔ جیسے ایک سائنسدان مجھ سے کہہ رہے تھے کہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ملکوں میں یہ شور مچایا جاتا ہے کہ یہ ڈیم بنائیں، وہ ڈیم بنائیں، ہماری ایٹمی طاقت کو چوم کر حفاظت سے کیوں رکھا گیا ہے اس کے ذریعے سے بجلی کیوں پیدا نہیں کی جاتی کیونکہ ڈیم کی عمر تو بیس تیس سال ہوتی ہے اور وہ اپنے بعد کی زمینوں کو سیم زدہ چھوڑ جاتے ہیں دیکھیں نا روز شور مچا ہوتا ہے کہ آج منگلا ڈیم کو کچھ ہو گیا، آج تربیلا ڈیم کو کچھ ہو گیا اگر ہمیں بارش اور گلیشئر کے پگھلنے والے پانی کو محفوظ کرنے کا طریقہ نہیں آتا تو کم از کم تھوڑی بہت ایٹمی انرجی سے بجلی پیدا کریں۔ ہمارے نوجوان سائنسدانوں کی اہلیت اور ذہنیت سے فائدہ اٹھائیں، ہم نے ایٹم بم کو ہتھیلی کا چھالہ بنا کر رکھا ہوا ہے اور ہر وقت یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ یہ کسی دہشت گرد کے ہاتھ نہ لگ جائے اگر اسے صحت مند اصولوں اور ذرائع کے لئے استعمال نہیں کرنا تو ذرائع اور قوت کو استعمال کرنا بھی گناہ کبیرہ ہوتا ہے۔
تفنن طبع کے لئے یہ بھی نوٹ کریں کہ قومی اسمبلی کے لئے 17 فیصد خواتین کی نشستیں ہیں جن کے لئے 258 خواتین نے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں میں بھی وہ 17% کا کوٹہ ہے جبکہ ماشاء اللہ 559 خواتین حق مانگتی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ بالائے بام کیا آتا ہے۔
تازہ ترین