• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے وزیر اعظم کے رفقاء، مشیران کرام ،وزراء سب مل کر کروڑوں روپے تنخواہوں کی مد میں وصول کرکے اپنی کارکردگی کی حماقتوں کی سنچریاں دائیں بائیں چھکے مار کر پوری کرتے ہوئے وزیر اعظم کو ہر محاذ پر پسپا کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ خصوصاً جب سے پی ڈی ایم حرکت میں آئی ہے‘ ابھی اُس نے اپنا نصف سفر بھی طے نہیں کیا تھا کہ بوکھلاہٹ ،بیان بازیاں دونوں طرف سے زور و شور سے جاری رہیں ۔این آر او کی سمت میں یوٹرن آتا جارہا ہے اور اب اپوزیشن والے دعویٰ کرنے لگے ہیں کہ حکومت دسمبر تک کی مہمان ہے ۔ہم عمران خان کو این آر او نہیں دینگے ۔گوجرنوالہ جلسہ تمام کنٹینروں ،گرفتاریوں کے باوجود اپوزیشن کا بھر پور اور کامیاب شو تھا مگر ہمارے وزراء اُس کو ناکام اور فلاپ شو کا نام دے کر وزیراعظم عمران خان کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔وزیراعظم عمران خان نے خود اس شو سے کیا مطلب لیا ہے؟ صرف اتنا کہا ہے کہ یہ سب مل کر کچھ بھی کرلیں میں انہیں نہیں چھوڑوں گا ۔پچھلے ہفتے راقم نے اپنا بے لاگ تبصرہ پیش کردیا تھا اور اب میں کراچی کے جلسہ کی طرف آتا ہوں اس جلسے کا انتظام پاکستان پیپلز پارٹی کے ذمے تھا تو حسبِ سابق اُن کے وزراء جن کا تعلق اندرون سندھ سے ہے، اپنے اپنے حلقوں سے ٹرک بھر بھر کر کراچی سیر کرانے اپنے ووٹروں کو لے آئے۔ جلسہ تو بھر پور تھا مگر کراچی والوں کی شرکت آٹے میں نمک کے برابر تھی ۔اسی وجہ سے مولانا فضل الرحمٰن کے دست راست محمود خان ا چکزئی نے اُردو میں تقریر کرتے ہوئے اُردو کو باہر کی زبان قرار دےدیااور حضرت قائد اعظم کے ارشادات کو بھی نظر انداز کردیا جس میں انہوں نے قیام پاکستان کے وقت فرمایا تھا کہ پاکستان کی مادری زبان اُردواور صرف اُردو ہوگی۔اگرچہ ہمارے ساتھ اکثریت میں بنگالی بھائی بھی شامل تھے ۔

خیر کچھ لوگ تنگ نظری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔غالباًاس مرتبہ اُن کو اپنی شکست ہضم نہیں ہورہی ہےاور مولانافضل الرحمٰن جو خود پہلی مرتبہ اسمبلیوں سے باہرہیں،انہیں اسمبلیوں کو جعلی اسمبلیاں قرار دے کر خود اپنے اراکین، صاحبزادے اور برادر خورد کے اسمبلیوں میں جانے کا کھلا مذاق اُڑارہے ہیں اور تمام مراعات بھی وصول کررہے ہیں ۔یہ کیسی دو عملی ہے؟ اگر عوام نے ان لیڈرانِ کرام کو پہلی مرتبہ رد کیا ہے تو انہیں ووٹ کو عزت دو کے نعرے میں پہل(خود) اپنے گھر سے کرنی چاہیے تھی ۔اپنے وہ تما م اراکین جو پچھلے الیکشنوں کی نسبت آدھے رہ گئے تھے ، انہی سے استعفے دلواکر اپنے اعلانات کا بھر م رکھ لیتے ۔کراچی کے جلسے میں انجانے میں کیپٹن (ر) صفدر کا گراف ایک دم مریم نواز سے بھی اونچاچلاگیا جس میں انتظامیہ کی نااہلی کی بدولت مزارِ قائد پر نعرےکو غلط رنگ دے کر اُن کی گرفتاری اُن کو پہلی مرتبہ ہیرو بنا گئی۔ورنہ وہ تو صرف ڈرائیونگ کی حد تک محدود رہتے تھے ۔نیز اوپر سے آدھی رات کو آئی جی پولیس کو اُٹھاکر ایف آئی آر کٹواکر خود پولیس سربراہ کیسبکی کرا دی گئی ۔اور اب دونوں فریق ایک دوسرے پر الزامات اور نااہلی کا سہرا باندھ رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پولیس اور رینجرز میں آنکھ مچولیاں تو ہوتی رہی ہیں مگر اتنی سنگین غلطی ہرگز نہیں ہوئی تھی ۔جس کی وجہ سے سندھ پولیس حرکت میں آئی اور لگ بھگ 100سے زائد چھٹی کی درخواستیںایک دن میں جمع کرادی گئیں اور کام کرنا بھی چھوڑ دیا ۔کچھ لوگ وزیراعلی مرادادعلی شاہ کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے مریم نواز سے معافی مانگنے کے بعد مرکز کی مداخلت کو چیلنج کردیا۔وزیراعظم عمران خان لاعلم رہے اور گورنر سندھ کو اسلام آباد طلب کرکے معاملہ دبادیا مگر ہماری مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمرجاوید باجوہ نے بروقت بلاول بھٹو زرداری کو فون کرکے عقلمندی کا ثبوت دیا اور معاملہ 10دن کے لئے موخر کرادیا ورنہ عین ممکن تھا پورے ملک کی پولیس حرکت میں آجاتی اور تمام صوبوں سے پولیس سندھ پولیس کی ہمدردی میں چھٹیوں پر چلی جاتی اور ملک کا نظام درہم برہم ہوجاتا یہ خبر بھی سننے میں آئی ہے کہ پنجاب اور کے پی پولیس نے بھی چھٹیوں کی درخواستیں تیار کرلی تھیں ۔خیر انکوائری کمیشن تو بروقت بٹھادیا گیا ہے مگر کیا آج تک کسی کمیشن کے فیصلے پر عمل درآمد بھی ہوا ہے سوائے وقت گزارنے کے۔ دوسری طرف سند ھ حکومت نے جزائر حوالے کرنے کے بجائے سندھ اسمبلی میں قرارداد پاس کرواکے مرکز کے خلاف نیا محاذ کھڑا کردیا ہے ۔صرف ایم کیوایم اور پی ٹی آئی والے واک آؤٹ کرگئے مگر پی ٹی آئی کے ایک ممبر اور پی ٹی آئی کی حامی جماعت جے ڈی اے نے بھی سند ھ حکومت کا ساتھ دیا ہے۔عمران خان اس کا کیسے نوٹس لیتے فی الحال تو سانپ کے منہ میں چھچھوندر پھنس چکی ہے،نگلنے اور اُگلنے میں سبکی کس کی ہوگی ؟ مولانا فضل الرحمٰن اور بلاول بھٹو زرداری دونوں ہی مرکز کے خلاف کھل کر محاذ کھولنے کی پوری کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ اس جنگ کو صرف تیل چھڑکنے کی دیر ہے۔بھیانک تصادم ہونے کا شدید خطرہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی والوں کی غلطیوں سے سٹپٹاکررہ گئی ہے۔اب واقعی لگنے لگا ہے کہ بے لگام مہنگائی ،بجلی ،گیس ،تیل کی ہفتہ وار قیمتوں کے اُتار چڑھائو سے تنگ آئے عوام کا پیمانہ چھلکنے لگا ہے۔ تبدیلی کے نعرے اب خود بے نقاب ہوچکے ہیں۔

تازہ ترین