اسلام آباد(طارق بٹ) چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے سیکٹروں آف شور کمپنیوں حوالے سے پاناما پیپرز لیکس کی تحقیقاتی کیلئے مجوزہ پارلیمانی کمیشن میں شمولیت سے انکار کرکےاحسن اقدام اٹھایا ۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے سیکٹروں آف شور کمپنیوں حوالے سے پاناما پیپرز لیکس کی تحقیقاتی فیصلہ سازی میں شمولیت سے انکار کرکےاچھا اقدام اٹھایا۔ اس قسم کے انکار کی ان جیسی قد آور شخصیت سے توقع تھی۔ یہ ان کے اس عہدے کی بھی ضرورت تھی، جس کے تحت وہ غیر جانبداری اور پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی کارروائی کی صدارت تک محدود رہنے کےپابند ہیں۔ نواز شریف کی حکومت انہیں پارلیمانی کمیشن کا سربراہ بنانے کا رتی برابر بھی ارادہ نہیں رکھتی تھی، یہ تجویز ان کی پارٹی کے سینئر ساتھی خورشید شاہ کی جانب سے سامنے آئی تھی۔ اگر چہ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے تمام ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کا جائزہ لینے کیلئے مستقل اخلاقی کمیٹی کے قیام کی تجویز دی تھی تاہم حکومت نے یہ تجویز نہ مانی۔ عدالتی کمیشن کے بجائے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کیلئے اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ خورشید شاہ نے چیئرمین سینیٹ رضاربانی کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی تجویز دی تھی ، جس میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کی تعداد مساوی ہو۔ ابتداء میں اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ دوسری جانب سینیٹ کی کمیٹی برائے اقتصادیات کے چیئرمین نے اپنے تئیں آ ف شور کمپنیوں کی تحقیقات کا اعلان کیا تھا، لیکن اس میں بھی کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ ملک کے ہربڑے معاملے کی طرح کمیشن کا معاملہ بھی بحث کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ جس طرح اپوزیشن جماعتوں نے اس معاملے پر ردعمل کا اظہار کیا ، اس سے کسی بھی معزز سابق جج کیلئے کمیشن کا حصہ بننا ناممکن ہوگیا۔ اب تک سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدالتوں کے کم از کم 5 جج صاحبان حکومت کے مجوزہ کمیشن کا حصہ بننے سے انکار کرچکے ہیں۔ جب حکومت کی جانب سے سابق جج سرمد جلال عثمانی کا نام تجویز کیا گیا اور بڑے وکلاء نے اسے سراہا تو پی پی پی اور تحریک انصاف نے یہ تجویز مسترد کردی۔ ایسی صورت میں جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی کی جانب سے کمیشن میں شمولیت سے معذرت بھی کیے جانے کا امکان ہے۔ لہٰذ ا نامزدگیوں کے حوالےسے ایسا ردعمل بار بار سامنے آتا رہے گا۔ اس سے کمیشن کے قیام میں بھی تاخیر کا احتمال ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے عدالتی کمیشن کے قیام کو پہلے ہی دوہفتے گزرچکے ہیں۔ حکومت اس میں ریٹائرد ججز کو شامل کرنا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن اس کی سربراہی سپریم کورٹ کی جانب سے کیے جانے پر اصرار کررہی ہے، اور یہی مسئلے کی جڑ ہے۔ لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ حاضر سروس ججز کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے گا یا مسترد کردیا جائےگا۔ اگر تحریک انصاف کے ماضی کر مدنظر رکھا جائے تو فی الحال اس ضمن میں فیصلے پر تنقید نہ کرنے کے حوالے سے مفاہمت ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے عہد کا پاس نہیں رکھے گی۔ تاہم سابق جج جسٹس وجیہہ الدین نے اس کا حل پیش کیا ہے، ان کی تجویز ہےکہ حکومت چیف جسٹس سے درخواست کرے کہ وہ تین ریٹائرڈ ججز مقرر کرے، جنہیں اس کام کو چار ماہ میں مکمل کرنے کیلئے ایف بی آر ، ایف آئی اے ، بینک دولت پاکستان اور اعلیٰ ماہرین ٹیکس امور، فرانزک امور کے ماہرین، آڈٹ اوربین الاقوامی قانون کے ماہرین کی معاونت حاصل ہو۔