• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کے علاوہ متعدد فورم پر کشمیریوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق ، حق بقاء اور حق خود ارادیت دینے کے لئےاقوام متحدہ کے علاوہ متعدد فورم پر درجنوں قراردادیں پیش کی گئیںمگر وادی کشمیر کئی دہائیوں سے بد ترین تشدد اور پر آشوب حالات سے دوچار ہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیریوں کی صریحا ًنسل کشی کرتے ہوئے ڈیموگرافک تبدیلیاں کرنے کی مسلسل کوششيں کی جارہی ہیں۔کشمیر پر بھارتی فوج کا سالوں سے جاری تسلط یہاں کی ثقافت، زندگی او ر کشمیر کی معیشت کی شکستہ حالی کا باعث بن رہا ہے ۔1947 میں تقسیم کے بعد ہندوستان کے لئے کشمیر کے نصف حصے پر قبضے کی راہ ہموار ہوگئی۔ 

اس طویل ترین قبضہ نے کشمیری عوام کی سماجی اور معاشی زندگی پر بدترین اثرات مرتب کئے. تاریخی لحاظ سے، بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری اس طویل تنازعہ کے حل کےلئے اُوورسیز سطح پر مقیم کشمیری ورپاکستانی جدوجہد کررہے ہیں۔ 

معروف کشمیری رہنما زاہد اقبال ہاشمی گزشتہ 22 ، 24 سالوں سے اپنی پوری توانائی استعمال کرتے ہوئے بھارتی افواج کے مقبوضہ کشمیر پر قبصہ اور مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کےلئے کوششوں میں مصروف ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے علاوہ یورپی ہیڈکوارٹر برسلز ، انسانی حقوق کے تحفظ کے ہیڈکوارٹر جنیوا ، برلن امریکا تک مظاہروں میں پیش پیش نظر آئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض وظیفہ خور کشمیریوں کی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ نہیں جانے دیتے ۔وقت کا تقاضا ہے کہ اُورسیز سطح پر اس قسم کے مخلص لوگوں کوحکومت پاکستان کو ان رہنماؤں کو کشمیر کے متعلق خصوصی معاون بنائے، تاکہ یورپی ممالک میں انڈین سفارت کاری کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے ۔ برسلز میں یورپی یونین ہیڈ کوارٹر میں معروف کشمیری رہنما علی رضا سید دن رات کشمیر کا مقدمہ لڑ رہے ہیں ۔

7 دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود کشمیر پر جاری بھارتی تسلط اس علاقے کے سماجی، ثقافتی اور اقتصادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا رہاہے ۔ یہ بھی قابل ذکرہے کہ تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے بڑے پیمانے پرپیش کی گئی متعدد قراردادیں اس خطے کی سیاسی جہتوں پر مبنی تھیں جبکہ کشمیری عوام کی سماجی اور اقتصادی پہلوؤں پر اور خود خطے کے استحقاق پر بہت کم زور دیا گیا۔

تاریخی تناظر میں کہ جس کے تحت ان تنازعات کا حل پیش کیا گیا تھا، پاکستان کے لئے یہ ضروری ہے کہ کشمیر کے سماجی اور اقتصادی پہلوؤں کو پوری طرح سے سیاسی اور اسٹریٹیجک اہمیت سے الگ کر کے کشمیر کے مسائل کوعالمی سطح پر پیش کرنے کے لئے ایک جامع نقطہ نظر اجاگر کرے۔ اس کے علاوہ، پاکستان کو آزاد جموں و کشمیرپربھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے - اس کے لئےاعلی ترقیاتی حکمت عملی وضع کرے۔تنازعات کے حل کے لئے اس جامع نقطہ نظر میں، پاکستان آزاد جموں اور کشمیرکی تاریخ، محل وقوع، ثقافت، طرز زندگی، معیشت اور ثقافتی ورثے کے مختلف پہلوؤں کو یکجا کیا جاسکتا ہے۔ 

عالمی برادری میں آزاد جموں و کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ثقافتکو اجاگرکیا جائے۔ہمالیہ کے پہاڑوں سے لے کر پیرپنجال تک پھیلے ہوئے آزاد کشمیر کے دلکش ارضی خدوخال سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہوسکتے ہیں۔کشمیر کورقدرتی اور ثقافتی مقامات سے نوازا گیا ہے جن پر نہ صرف یہاں کی سیاحت کا دارومدار ہے بلکہ یہ کشمیر کے بیانیہ کو مضبوط کرنے میں بھی معاون ہو سکتے ہیں۔ اس مقصد کےلئے بیرون ملک پاکستانی سفارت خانوں میں علیحدہ کشمیر ونگ بنایا جائے، کیونکہ سفارت خانہ کے افسران دوہری ڈیوٹی صحیح طریقہ سے سرانجام نہیں دے سکتے۔ 

سفارت خانہ پاکستان پیرس فرانس سے حال ہی تبدیل ہو کراسلام آباد جانے والے قونصلیٹ عدیل کھوکھر جنہوں نےدن رات جدوجہد کرتے ہوئے نہ صرف پاکستانیوں کے مسائل حل کئے بلکہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ کئی ماہ گزرنے کے باوجود ان کا کوئی متبادل نہیںآیا۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ یہاں اپنے ذیلی ادارے قائم کر کے آزاد جموں و کشمیر کے شاندار ، جنت نظیر مناظراور وادی کے قدرتی حسن کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، پاکستان کے ٹیلی ویژن پروڈکشن ہاؤس آزاد جموں و کشمیر کی قدرتی خوبصورتی اور یہاں کی ثقافت پر مختلف پروگراموں کا آغاز کر سکتے ہیں۔

ان اقدامات سے جہاں عالمی برادری کے سامنے اس دلکش وادی کی خوب صورت منظر کشی ہوگی، وہیں کشمیر کے لوگوں کو بھی توجہ ملے گی۔ پروڈکشن ہاؤسز میں ڈراما اور فلم سازی کے کام میں مقامی آبادی کو مواقع ملنے چاہئیں۔ آزاد کشمیر 74 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ افرادی قوت سے مالا مال ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے یہاں کے ثقافتی رنگ نظر آئیں اور بین الثقافتی تفہیم کو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی اور پاکستان کے دیگر حصوں سے لوگوں کو کشمیرکی ثقافت کو جاننے کا موقع ملے گا۔

آزاد جموں کشمیرکی ثقافت میں دستکاریوں، زبانوں، پکوانوں ، پہناووں، تہواروں اور رقص کا مسحورکن امتزاج پایا جاتا ہے ، جو اس کی ثقافت اورطرز بودوباش کو مزین کرتے ہیں. آزاد کشمیر کی دستکاری صنعت کو لوگوں کی سماجی اور اقتصادی حالت بہتر بنانےکے لئے استعمال کیاجا سکتا ہے۔ کراچی کی کاروباری تنظیمیں یہاں کی ہینڈی کرافٹ انڈسٹری میں سرمایہ مختص کرکے کشمیر کے لوگوں کی مستحکم معاشی بہبود میں تعاون کر سکتی ہیں۔ آزاد کشمیر معدنیات کی دولت سےمالا مال ہے، جن میں قیمتی پتھرکا فی اہم ہیں۔ ابھی تک معدنی ذخائر لگ بھگ 157 ملین ٹن (70 ارب روپے) کےدریافت ہوئے ہیں، جو ممکنہ طور پر موجود ذخائر کے اضافے سے 264 لاکھ ٹن تک پہنچ سکتے ہیں ۔ 

ان معدنیات میں یاقوت ،اور دوسرے قیمتی پتھر شامل ہیں۔یہ غیر معمولی ذخائر زرمبادلہ کی شرح میں اضافہ اور وادی میں ہنر مند افرادی قوت کو روزگار کے مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ آزاد کشمیر کا .642 فیصد رقبہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے، جوعالمی نقطہ نظر سے فائدہ مند ہےکہ یہ جنگلاتی وسائل تجارتی مقاصد کے لئے کاربن کریڈٹ کے منبع کے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ، پاکستان اور بھارت کے اہل علم اور دانشور کشمیر کو اس نازک صورت حال سے نکالنے کی فوری ضرورت کے حوالے سے مشترکہ علمی منصوبے شروع کرکے اوران پر مبنی مواد مرتب کر کے، اسے شائع کر کے عوام میں اجتماعی شعور کی بیداری کے لئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

بہتر مستقبل اور خوشحالی کے لئے لوگوں میں امید نو کی بیداری سے شائد ان کے جذبے اور خلوص کو عمل کے لئے تحریک دینا ممکن ہو۔ یہ امید ہی ہے جو لوگوں کو روایتی سوچ کی حدوں سے کہیں آگے خیال کی بلندیوں پر لےجاتی ہے۔کشمیر سے متعلق یوٹوپین ادب لوگوں میں ایک امید پیدا کرے گا کہ کس طرح یہ خطہ تنازعہ حل ہوتے ہی ترقی اور خوشحالی حاصل کر سکتا ہے اور یہ دونوں معاشروں اور ریاستوں کواس قدیم ترین تنازعہ کے پائیدار حل تلاش کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

کشمیر کے لئے سماجی و اقتصادی نمونے کی منصوبہ بندی پر مبنی پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہوئے، اگر پاکستان آزاد کشمیر میں ایک پائیدار ترقی کے ماڈل کی تعمیر کرتا ہے تو عالمی سطح پر کشمیر کے حوالےسے اس کا بیانیہ مضبوط ہو گا ، جو عوام اور خطے کے بیانیے کو عالمی سطح پر سماجی و اقتصادی تناظر میں پیش کرنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری کو کشمیر سے متعلق پوشیدہ حقائق باور کرئے۔ کشمیر ایک تہذیبی ورثہ کا حامل ہے، یہ ثقافتوں اور مذاہب کا مرکز ہے۔ 

بدھ مت سے لے کے ہندومت اور اسلام ، سرزمین کشمیر میں مختلف مذاہب کےرہنے والوں سے ایک سماجی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔کشمیر کی اہمیت کی نسبت سے کشمیر کے سماجی اقتصادی اور ثقافتی نمونوں کو اجاگر کرتے ہوئے ہماری مکمل توجہ خطے میں پائیدار ترقی اور امن کے لئے تنازعے کے حل پر مرکوز رہنی چاہئے۔

تازہ ترین