• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاید یہ 1998ء یا اس کے آس پاس کا و اقعہ ہے ،نواز شریف پاکستان اور ٹونی بلیئر برطانیہ کے وزیراعظم تھے۔ اردن میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران نواز شریف نے ٹونی بلیئر سے درخواست کی کہ ہمارا ایک ملزم الطاف حسین لندن میں قیام پذیر ہے، اسے ہمارے حوالے کر دیں۔ بلیئر نے اپنے ایک ترجمان کو میاں صاحب کی بات سننے کیلئے کہا، ترجمان نے میاں صاحب سے عرض کیا ، جناب!برطانیہ میں اگر ہماری کسی گاڑی کا چالان ہو جائے تو وزیر اعظم کا اتنا اختیار نہیں کہ وہ چالان معاف کروالے چنانچہ ملزموں کی حوالگی کے معاملے میں ملکی قوانین اور ہمارے ادارے موجود ہیں، آپ کے ادارے ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ترجمان کے اس جواب پر یہ بھی ذہن میں رکھا جائے کہ اس وقت الطاف حسین کے پاس برطانوی شہریت بھی نہیں تھی ۔ابھی کوئی دو ہفتے پہلے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ایک جلسہ نما کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے کھلنڈرے نوجوانوں کی طرح منہ پہ ہاتھ رکھ کر کہا کہ نواز شریف کی واپسی کیلئے مجھے خود جانا پڑا تو لندن جاکر وزیراعظم بورس جانسن سے بات کروں گا، ان کے اس بیان کا ٹونی بلیئر کے ترجمان سے کی گئی گفتگو کے تناظر میںتجزیہ کیاجا سکتا ہے ۔

ابھی جولائی کے پہلے ہفتہ کی بات ہے، کینیڈا نے ہانگ کانگ کے ساتھ ملزموں کی باہمی حوالگی کے معاہدہ کو از خود یکطرفہ طور پر ختم کر دیا۔کینیڈا کے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ چین نے ہانگ کانگ میں سیکورٹی کے حوالہ سے جو نئے قوانین متعارف کروائے ہیں ، وہ شخصی آزادیوں اور جمہوری اصولوں سے متصادم ہیں۔ ہم ہانگ کانگ کے عوام کی حمایت جاری رکھیں گے اور آنے والے دنوں میں امیگریشن قوانین میں تبدیلی لانے سمیت کئی اقدامات اٹھائیں گے۔جون 2019ء میں برطانوی اسٹیٹ سیکرٹری و دولت مشترکہ جیریمی ہنٹ نے لندن میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد ان کی موجودگی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’برطانیہ ملزموں کی حوالگی پر کبھی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کرے گا جس میں سیاسی بنیاد پر بنائے گئے مقدمات کا شائبہ ہو‘‘۔

پاکستان اور برطانیہ کے مابین اب ملزموں کی حوالگی کا معاہدہ EXTRADITION TREATY سرے سےموجود ہی نہیں ہے اور نہ کبھی تھی۔ گزشتہ دو سال سے پاکستانی حکومت عوام کو بجائے اصل صورتحال سے آگاہ کرنے کے انہیں گمراہ کر رہی ہے کہ ہم اب فلاں اور فلاں کو پکڑ کر پاکستان لے آئیں گے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں۔ بہت سے مشیر اور وزراء برطانیہ و پاکستان کے مابین ملزموں کی تحویل کے معاہدہ کو ملزموں کی حوالگی کے معاہدہ کے ساتھ کنفیوژ کررہے ہیں ۔ ملزموں کی حوالگی کا معاہدہ یہ ہے کہ اگر پاکستان سے برطانیہ آیا ہوا کوئی بھی شخص برطانیہ میں جرم کرتا ہے ،برطانوی عدالت اسے جیل بھجوا دیتی ہے اور بعد میں اس کا وکیل عدالت سے استدعا کرتا ہے کہ مجرم کی جتنی سزا باقی رہ گئی ہے، وہ اسے پاکستان کی جیل میں گزارنا چاہتا ہے چنانچہ عدالت اگر اس درخواست کو منظور کر لیتی ہے تو مجرم کو پاکستان کی جیل میں بھجوا دیا جاتا ہے لیکن برطانوی حکام کے نوٹس میں جب یہ بات آئی کہ برطانیہ سے پاکستان بھجوائے گئے کئی مجرم رشوت اور اثرو رسوخ کے بل پر آزاد فضائوں کے مزے لے رہے ہیں تو 2012ء میں برطانیہ نے پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ بھی معطل کر دیا جسے 2015ء میں نواز شریف حکومت کی اس یقین دہانی کے بعد دوبارہ بحال کر دیا گیا کہ آئندہ اس معاہدے کا غلط استعمال نہیں کیا جائے گا۔ تاریخ کے اوراق میں موجود ہے کہ 2012ء میں پاکستان کی وزارتِ داخلہ اور پنجاب پولیس کے کئی حکام کو اس جرم میں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

حکومتِ پاکستان جبکہ اچھی طرح جانتی ہے کہ ہمارا برطانیہ کے ساتھ نہ تو ملزموں کی حوالگی کا کوئی معاہدہ ہے اور نہ ہی پاکستان میں ایسے کوئی قوانین یا حالات موجود ہیں جن کی بنا پر ایسا کوئی معاہدہ ممکن ہو سکے لیکن اس کے باوجود حکومتی زعما نواز شریف و بیٹوں سمیت لیگی قائدین کو پاکستان لانے کی لاحاصل بحث میں پوری قوم کو الجھا رہے ہیں جبکہ حکومت کو علم ہے کہ اپنے کسی بھی ملزم کو برطانیہ سے پاکستان لانے کیلئے ریاستِ پاکستان کو برطانوی عدالت میں متعلقہ شخص کو مجرم ثابت کرنا ہے جو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ فرض کیجئے، حکومت نواز شریف کیخلاف مقدمہ برطانوی عدالت میں لے جانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو عدالت کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ملزم کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے مجرم قرار دیا ہے بلکہ برطانوی عدالت تمام تر مقدمے کی تفتیش ازسرنو خود کرے گی۔ عدالت اپنے مستند ذرائع سے یہ تصدیق کروائے گی کہ کیا یہ تمام مقدمات سیاسی مخالفت میں تو نہیں بنائے گئے، لہٰذا کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ حکومت اور ریاستی مشینری عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی اور ہوشربا مہنگائی پر اپنی توانائیاں صرف کرے اور نواز شریف کو موقع دیا جائے کہ وہ از خود پاکستان آئیں، اگرایسا ممکن نہیں تو دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اوپر بیان کئے گئے قوانین کو برطانوی اور بین الاقوامی اصول و ضوابط سے ہم آہنگ کیا جائے تو پھر برطانوی ادارے خود نواز شریف کو جہاز میں بٹھا کر پاکستان بھیج دیں گے‘ آپ کولندن آنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی!

تازہ ترین