حافظ محمد شہباز عزیز
ہر اہل ِ فکرو دانش اور علم و حکمت کا متلاشی یہ حقیقت تسلیم کرتا ہے کہ ’’نہیں ہے کوئی رفیق کتاب سے بہتر‘‘ اور تاریخ اس سچ کی گواہی دیتی ہے کہ وہ اقوام اپنے علم وفن کی بنا پر ترقی کی منازل طے کرتی اور فاتح اقوام کی صف میں شمار ہوتی ہیں، جن کا ہتھیارقلم اور اوڑھنا بچھونا کتاب ہوتی ہے-لیکن اس کے برعکس جو اقوام علم کی قدر نہیں کرتیں اور کتاب سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہیں وہ نہ تو معراج انسانیِ کے کمال کو پاسکتی ہیں اور نہ ہی ترقی اور فکر وفن کی منازل طے کرپاتی ہیں-کتاب کی اسی ضرورت و اہمیت کے پیش ِ نظر مشہور فرانسیسی مفکر والٹیر نے کہا تھا،’’تاریخ میں چند غیر مہذب وحشی قوموں کو چھوڑ کر کتابوں ہی نے لوگوں پر حکومت کی ہے-فرق صرف یہ ہے کہ جس قوم کی قیادت اپنےعوام کو کتابیں پڑھنا اور ان سے محبت کرنا سکھادیتی ہے وہ دوسروں سے آگے نکل جاتی ہے‘‘۔
آج بھی مغربی سماج کی ترقی و خوشحالی میں ایک اہم کردار کتاب بینی و کتاب دوستی کا ہے- کتاب بھولی بھٹکی قوموں کی زندگی میں روشن قندیل کا کام کرتی ہے-لیکن گزشتہ چند عشروں بالخصوص جب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ارتقاء ہوا اور سوشل میڈیا کا رجحان بڑھا تو انسان نےاس قندیل سے استفادہ کرنا چھوڑ دیا اور اس کےدل سے کتاب کا ذوق و شوق کم ہوتا چلا گیا- کتاب سے قطع تعلق کرتے ہوئے اپنے صدیوں پرانے تہذیبی ورثے کو پسِ پشت ڈال دیا۔
یہ حقیقت ہے کہ جس معاشرے میں علم و تحقیق اور مطالعہ کا عمل رک جائے وہ معاشرہ ذہنی و فکری طور پر مفلوج ہو جاتا ہے- علم دوست معاشرے میں علم کی قدر کی جاتی ہے جہاں لوگوں میں مطالعۂ کتاب کا ذوق و شوق کثرت سے پایا جاتا ہے- مجتبیٰ حسین اپنے سفر نامہ ’’جاپان چلو جاپان‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:
’’پورے ایشیاء میں جاپانی سب سے زیادہ پڑھا کو قوم ہے اور دنیا بھر میں ان کے اشاعتی کاروبار کی دھا ک بیٹھی ہوئی ہے-جہاں جائیں لوگ کتاب خریدنے اور پڑھنے میں مصروف ہوتے ہیں -ٹوکیو میں ایک محلہ ہے کندا جو شہنشاہ ِ جاپان کے محل سے متصل ہے اس میں ہر طرف کتابیں فروخت ہوتی ہیں کتابوں کی اتنی بڑی دکانیں ہم نے کہیں نہیں دیکھیں-ہوٹلوں اور تفریح گاہوں میں بھی کتابوں کی فروخت کا انتظام موجود ہے- چار پانچ سال کے کم عمر بچے بھی بڑے ذوق وشوق سے کتابیں خریدتے اور پڑھتے ہیں- جاپان کی آبادی تقریباً ساڑھے گیارہ کروڑ ہے اور سال بھر میں تقریباً 80 کروڑ کتابیں فروخت ہوتی ہیں-گویا ہر جاپانی سال میں ساڑھے چھ کروڑکتابیں ضرور خریدتا ہے‘‘-
کتاب انسان کےلئے جہاں اہم علمی و فکری اثاثہ ہے وہیں یہ اُن کے لیے امید کا محور بھی ہے- کتب بینی سے جہانِ تازہ و افکارِ تازہ کی دولت نصیب ہوتی ہے-کتاب دوستی کی اہمیت سے متعلق معروف فلسفی سقراط کا یہ قو ل ہے کہ’’وہ گھر جس میں کتابیں نہ ہوں وہ اس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو‘‘-
انگریز دانشور جان ملٹن کے مطابق،’’ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے -اس کو محفوظ کرنے کا مقصد ایک زندگی کے بعد دوسری زندگی کو اس عظیم رو ح سے روشناس کرانا ہے‘‘۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم تہذیب کتب بینی اور محبت ِ کتاب کے حوالے سے ایک منفرد وممتاز مقام رکھتی ہے۔ علوم و فنون کی ترقی میں اسلامی تہذیب کا کردار بے مثل ہے- اسلامی تاریخ کتاب دوستی کی عظیم مثال سے مزین ہے، جس سے پتہ چلتا ہے جتنی بھی عظیم شخصیات گزری ہیںان سب کا کتاب سے گہراتعلق تھا، جس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہمارے اسلاف علم و تحقیق کی جستجو میں کس قدر اعلی ٰ اقدار کے حامل تھے۔
سلاطینِ اسلام ان مکانوں کی بہت حفاطت کرتے تھے جو عام کتب خانوں کےلئے مخصوص ہوتے تھے- مثلاً شیراز، قرطبہ اورقاہرہ میں ان کتب خانوں کیلئے علیحدہ عمارتیں تعمیر کرائی گئی تھی، جن میں مختلف کاموں کےلئے متعدد کمرے ہوتے تھے ۔مثلاً گیلریاں جن میں کتابوں کی الماریاں رکھی جاتی تھیں اور وہ کمرے جہاں شائقین کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے-بعض کمرے ان کاتبوں کیلئے مختص تھے جہاں وہ کتابوں کی نقلیں تیار کیا کرتے تھے۔
یہ بات سچ ہے کہ جس قوم پر کتاب کی حکمرانی ہو وہ قوم دنیا پر حکمران ہوتی ہے اور اس کی مثال مسلمانوں کا وہ سنہری دور ہے ،جس میں مسلمان معاشرہ کتاب لکھنے، خریدنے اور پڑھنے میں سب سے آگے تھا- علم فلکیات، ریاضی، طب، کیمیا اور طبیعات کے میدان میں کتب کی تخلیق و اشاعت اور مطالعہ ٔ مسلم معاشرے میں عام تھا-معاشرے کا ہر فرد کتاب دوستی کا مزاج رکھتا تھا اور اسے ایک شاہانہ مشغلہ سمجھا جاتا تھا- اپنی کتاب دوستی اور علم و تحقیق کی بدولت مسلمانوں نے ایک طویل عرصے تک دنیا پر حکمرانی کی-لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرہ علم و ادب اور کتاب سے بہت دور ہوتا چلا گیا اور آخر کار ترقی وعروج کی دوڑ میں اقوامِ عالم کی نسبت بہت پیچھے رہ گیا۔
ہمارے اسلاف نے ہمیں کتاب اور علم و ادب سے محبت کا درس دیا ہے بلکہ حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ ادب (علم و تحقیق ) اور دین میں گہرا تعلق بیان کرتے ہوئے اسے قوموں کی خودی کی تعمیر کا ایک اہم ذریعہ گردانتے ہیں۔مثلاً ان کی نظمیں ’’دین و تعلیم‘‘ اور ’’دین و ہنر‘‘ اسی فکر کی عکاس ہیں۔ ضرب ِ کلیم (دین وہنر ) میں فرماتے ہیں کہ:
ہوئی ہے زیرِ فلک امتوں کی رسوائی
خودی سے جب دین و ادب ہوئے بیگانہ
اب عصری تقاضوں کو بھانپتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی اور عوامی سطح پرنوجوانوں میں کتاب بینی کا شعور اجا گر کرنےکےلئے مختلف ثقافتی و ادبی میلوں اور سرگرمیوں کا انعقاد ہوں، تاکہ معاشرے میں بالخصوص نوجوان نسل کو کتاب دوستی اور کتاب بینی کی طرف مائل کیا جا سکے۔