• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر :انعام الحق نامی۔۔۔برمنگھم
گذشتہ ماہ سے لے کر جب سے پاکستانی عدالتوں اور نیب نے احتساب کا شکنجہ کسا اور شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان سے ان کی آمدن سے کئی گنا زیادہ اساسوں کا حساب مانگنا شروع کیا، آصف علی زرداری اور فریال تالپور پر منی لانڈرنگ کی فردِ جرم عائد کی اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم صادر کیا کہ حکومت ہر حال میں میاں نواز شریف کو عدالت کے سامنے پیش کرے، تب سے میاں نواز شریف سمیت اپوزیشن کے سبھی رہنماؤں کے پیٹ میں کشمیر اور گلگت بلتستان کا درد جاگ اٹھا ہے۔ یہ اپنے ہر بیان ہر جلسے میں کبھی عمران خان کو مودی کے 5 اگست کے اقدم میں شریک کار تو کبھی آرمی چیف کو تقسیم کشمیر کا منصوبہ سا ز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ 16 ستمبر کو آرمی چیف کی ملاقات سے لے کر کئی دن بعد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے اختتام تک اور اس کے 26 نکات میں شامل ’گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں لانے ‘ کے مطالبے کو اپنی زبان سے پڑھ کر سنانے تک مولانا فضل الرحمٰن کو نہ اس میں کشمیر کی تقسیم نظر آئی او ر نہ اس سے مسئلہ کشمیر دفن ہوتا نظر آیا۔ لیکن جونہی ان سے اربوں کی زمینوں کا حساب مانگا گیا تو وہ کشمیر کیلئے ماہیِ بے آب کی طرح تڑپنے لگے۔ مولانا صاحب کو شاید یہ یاد کروانے کی ضرورت ہے کہ 2008 سے لے کر 2018 تک ان کی بطور چیئرمین کشمیر کمیٹی کارکردگی کو کشمیری ابھی بھولے نہیں ہیں۔ 2010 جب تحریکِ آزادی میں تیزی آئی اور سینکڑوں نوجوان شہید کر دیئے گئے اور پوری کشمیری و پاکستانی قوم سراپائے احتجاج بنی رہی تو مولانا کو لب کھولنے کی توفیق تک تو نہ ہوئی لیکن انگریزی زبان سے نابلد ہونے کے باوجود بغیر کوئی ترجمان لیئے مہنگے ترین بین الاقوامی دوروں کے مزے اڑاتے رہے۔ ان کی اسی خاموش حسنِ کارکردگی کی بنا پر کشمیریوں کے آج کل دوسرے بڑے ہمدرد میاں نواز شریف نے 2013 میں کشمیر کمیٹی دوبارہ انھیں کے حوالے کر دی۔برہان وانی کی شہادت تک کے ان تین سال میں مولانا نے کمیٹی کی محض تین میٹنگیں بلوائیں جن کیلئے حضرت نے 18 کروڑ اخراجات کی مد میں وصول کئے۔ یاد رہے کہ بحیثیت ِ چیئر میں کشمیر کمیٹی مولانا کا عہدہ، تنخواہ و مراعات وفاقی وزیر کے برابر تھیں جن میں بیسویں گریڈ کا ایک سیکرٹری، سرکاری رہائش اور سرکاری پیٹرول سمیت گاڑی وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ برہان وانی کی شہادت کے آٹھ دن بعد مولانا نے محض ایک رسمی میٹنگ بلائی او ر مسئلہ کشمیر کے ساتھ اپنی اسی دلچسپی کو جاری رکھتے ہوئے جنوری 2017 میں پاکستانی پارلیمنٹ میں کرائے جانے والے انٹرنیشنل پارلیمنٹری سیمینار ، جس میں دنیا بھر سے ممبرانِ پارلیمنٹ اور مفکرین مدعو تھے، میں بھی شریک ہونا مولانا نے گوارا نہ کیا۔ اب عمران خان کے کشمیر کیلئے کچھ بھی نہ کرنے کا صبح شام ورد کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن سے جب ایک صحافی نے ان کی خاموشی اور کشمیر سے عدمِ دلچسپی پر سوال اٹھایا تو وہ آگ بگولا ہو کر بولے کہ ’’ کیا میں ہندوستان پر حملہ کر دوں؟‘‘ دوسری طرف پیپلز پارٹی اور ن لیگ پاکستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان، تینوں جگہوں پر تین مختلف راگ الاپ رہی ہیں۔ گلگت بلتستان میں دونوں صوبہ بننے کی راہ ہموار کرنے کی دعویدار ہیں۔ وہاں کے لوگوں کے جذبات کو مدِنذر رکھتے ہوئے بلاول زرداری ببا نگِ دھل یہ کہتے ہیں کہ 2009 میں پیپلز پارٹی نے ہی اس سفر کی بنیاد رکھی تھی اور اب ہم ہی گلگت بلتستان کو آئینی صوبے کا درجہ دیکر یہاں کے لوگوں کی محرومیوں کا ازالہ کریں گے۔ جب کہ یہی پیپلز پارٹی آزاد کشمیر میں ’’ گلگت صوبہ نامنظور‘‘ کی قراردادیں پاس کر رہی ہے اور اسے تقسیمِ کشمیر کی سازش بھی قرار دے رہی ہے ۔ یہ بھی اللہ کی شان ہے کہ ساتھ ہی یہ لوگ بلاول کو کشمیریوں کا ’نجات دہندہ‘ منوانے کے بھی درپے ہیں۔ اسی طرح ن لیگ کا گلگت میں دعویٰ ہے کہ میاں نواز شریف نے ہی گلگت بلتستان کے لوگوں کے دل کی آواز سنی اور اگست 2015 میں گلگت اسمبلی کے مطالبے کو مانتے ہوئے اکتوبر 2015 میں سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی ۔ اسی کمیٹی کی سفارشات ہی کی روشنی میں ہی آج صوبہ بننے کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سرتاج عزیز کمیٹی نے تین ماہ میں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سمیت مختلف پہلوؤں پر غور کر کے رپورٹ پیش کرنا تھی۔ لیکن چونکہ اگلے چند ماہ میں آزاد کشمیر میں الیکشن ہونا تھے اور یہاں چورن مختلف بیچنا تھا،اس لئے اس رپورٹ کو موخر کر دیا گیا جو بلآخر فروری 2018 میں کابینہ کے سامنے پیش کی گئی۔ ادھر وزیرِ اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر آرمی چیف کے ساتھ میٹنگ میں موجود ہونے کے باوجود آزادکشمیر میں ’’خفیہ ڈیل نامنظور‘‘ کا نعرہِ مستانہ بلند کیے ہوئے ہیں جب کہ پیپلز پارٹی ہی کی طرح گلگت بلتستان میں ن لیگ بھی سرتا ج عزیز رپورٹ کی بنیاد پر لوگوں سے ووٹوں کی طلبگار ہے۔ لیکن فاروق حیدر اور لطیف اکبر کو اپنی جماعتوں کا دوغلہ پن بلکل نظر نہیں آتا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سب سے پہلے یہ دونوں اپنی پارٹیوں سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لئے ایک ہی پارٹی سیٹ اپ کا مطالبہ کرکے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو یکجا کرنے کی بنیاد رکھیں۔ دوسری طرف آزاد کشمیر کے پراپرٹی ڈیلروں سے لیکر وکلا بارز اور قوم پرست تنظیموں تک سبھی گلگت بلتستان کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔ کوئی گلگت بلتستان کے لوگوں کو نا معلوم آئینی حقوق دینے کی بات کرتا ہے تو کوئی آزاد کشمیر کے ساتھ ایک ہی سیٹ اپ قائم کرنے کا مشورہ۔ لیکن ہم آزاد کشمیریوں کا رویہ ان کی جانب آج بھی حاکمانہ اور مالکانہ ہے۔ ہم اپنی سرزمین کے مالک تو خود کو سمجھتے ہیں لیکن یہی بات گلگت بلتستان کے لوگوں کیلئے کہنے سے کترا جاتے ہیں۔ اگر ہم واقعی انکے بھائی اور خیر خواہ ہیں تو ہمیں انکے جذبات و خواہشات کا بھی احترام کرنا ہو گا۔ وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر آزاد کشمیر کے عبوری آئینی سیٹ اپ سے مسئلہ کشمیر ختم نہیں ہوا تو ان کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مشروط کسی عبوری انتظام سے کیسے ختم ہو جائیگا۔ ویسے بھی مسئلہ کشمیر نہ تو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں، نہ پاکستانی حکومتوں اور نہ ہی ہم آزاد کشمیریوں کے کسی کردار کی وجہ سے زندہ ہے۔ یہ اگر آج بھی زندہ ہے اور عالمی ایوانوں میں گونج رہا ہے تو صرف اور صرف مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی قربانیوں کی وجہ سے نہ کہ قانونی دلائل یا ہمارے کسی کمال کی وجہ سے۔
تازہ ترین