وزیراعظم عمران خان نے اتوار یکم نومبر کو گلگت میں گلگت بلتستان کے آزادی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے اِس علاقے کو عبوری صوبائی حیثیت دینے کے جس فیصلے کا اعلان کیا وہ بعض حلقوں کی طرف سے عاجلانہ قرار دیے جانے کے باوجود علاقے کے لوگوں کی خواہشوں ضرورتوں اور امنگوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کا واضح لفظوں میں کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو مدِنظر رکھ کر کیا گیا۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے جموں و کشمیر کے لئے ’’بھارت کا اٹونگ انگ‘‘ کا راگ الاپتے ہوئے اِس باب میں جو بیان دیا، اُسے پاکستان کا دفتر خارجہ غیرذمہ دارانہ اور بلاجواز قرار دیتے ہوئے دو ٹوک انداز میں مسترد کر چکا ہے۔ ترجمان نے درست نشاندہی کی کہ انتظامی، سیاسی اور معاشی اصلاحات گلگت بلتستان کی مقامی آبادی کی امنگوں کی عکاس ہیں۔ اور یہ وہاں کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ مزید واضح کیا گیا کہ بھارت کا قانونی، اخلاقی یا تاریخی اعتبار سے اس معاملے میں کوئی لینا دینا نہیں۔ عملی حقیقت یہ ہے کہ وہاں کے انتظامی معاملات ایک صوبے کے انداز میں پہلے ہی چل رہے ہیں اور ایسا اس وجہ سے ہوا کہ 1947میں جب بھارت نے تقسیمِ ہند کے فارمولے کو پامال کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کیں تو ریاست کے کئی علاقوں کے لوگوں نے اُن کی مزاحمت کی جس میں صوبہ سرحد (آج کے خیبرپختونخوا) کے قبائلی بھی شامل ہو گئے یوں اقوامِ متحدہ کی مداخلت پر کی گئی جنگ بندی سے پہلے جو علاقے آزاد ہوئے وہاں کا نظم نسق چلانے کے لئے کشمیری لیڈروں نے باقاعدہ حکومت قائم کی اور اپنے علاقے کو آزاد کشمیر کا نام دیا۔ اِسی طرح گلگت بلتستان کے لوگوں نے اپنے علاقوں کو خود آزاد کرا لیا مگر اُن کے معاملات متعلقہ وزارت کے ماتحت رہے۔ وہاں کے لوگ ایسے انتظامی بندوبست کے خواہاں تھے جس کے باعث اُن کے مقامی مسائل سبک انداز میں چلتے رہیں۔ عملی حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی خواہشات کے مطابق انتظامی طور پر اِس علاقے کے معاملات چل رہے ہیں۔ اِس باب میں تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ گلگت بلتستان کوباقاعدہ صوبے کی حیثیت حاصل ہونی چاہئے۔ اختلاف اِس ٹائمنگ کے حوالے سے ہے کہ یہ کام مجوزہ صوبے کے انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہونا چاہئے یا بعد میں۔ اِس وقت چونکہ گلگت بلتستان میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں اِس لئے ہر بات، ہر فیصلے کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ اِس باب میں ایک نکتہ یہ اُٹھایا گیا ہے کہ آئین میں ترمیم کے بغیر گلگت بلتستان صوبے کا درجہ نہیں پاسکتا۔ یہ سوال بھی اُٹھایا گیا کہ علاقے کو صوبائی حیثیت دینے سے کشمیرکاز پر کسی قسم کا اثر تو نہیں پڑے گا؟ اگرچہ وزیراعظم کا مذکورہ اعلان اِن تمام پہلوئوں ،سوالوں اور نکات کو مدنظر رکھنے کے بعد سامنے آیا ہوگا۔ پھر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اِن تمام معاملات پر مزید غور کرلیا جائے۔ اہم بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ تاحال نہیں دیا گیا بلکہ عبوری طور پر انتظامی ضرورتوں کے لئے اس کی مشینری اِس انداز میں چلائی جارہی ہے۔ صوبے کا باضابطہ قیام تمام قانونی ضرورتیں پوری کرنے کے بعد ہوگا۔ اِس دوران ضرورت اِس بات کی ہے کہ وفاقی حکومت اور اپوزیشن میں شامل تمام پارٹیاں گلگت بلتستان کے انتخابات کی شفافیت یقینی بنائیں اور اِن چیلنجوں کو ملحوظ رکھیں جن کا پاکستان کو سامنا ہے۔ بھارت میں قائم انتہا پسند نسل پرست حکومت کے مذموم عزائم ڈھکے چھپے نہیں انہیں سامنے رکھتے ہوئے فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوششوں سمیت تمام پاکستان دشمن ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے کے لئے ہر پاکستانی کا ہر وقت چوکنا رہنا ضروری ہے۔