• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
’’سچائی کا مندر چلا گیا ہے‘‘ یہ الفاظ بیروت میں وزارت اطلاعات کے فارن پریس سنٹر کے ڈائریکٹر مروان چوکری نے رابرٹ فسک کی موت پر کہے ہیں،ایک سچے دوست اور ایک عظیم صحافی کو کھونے کا افسوس ہے، فسک کو بیروت سے پیار تھا، وہ اس شہر کو اپنا گھر کہتے تھے، 1975 سے 1990 تک خانہ جنگی کے دوران مشکل ترین وقت بھی اس شہر کے ساتھ جڑے رہے ، غیر ملکی صحافیوں کے لیے وہ دن بڑے نامساعد اور کٹھن حالات پر مبنی تھے، واشنگٹن پوسٹ: فسک جن کی رپورٹنگ سے اکثر تنازعات نے جنم لیا اتوار کے روز ڈبلن کے ایک اسپتال میں چل بسے ہیں، لندن دی انڈی پنڈنٹ جس میں وہ 1989 سے کام کر رہے تھے کے منیجنگ ڈائریکٹر کرسچن بروٹن نے خراج پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ فسک ایک نڈر اور سمجھوتہ نہ کرنے والے ہر قیمت پر سچائی اور حقیقت کو سامنے لانے کے لیے پوری طرح پرعزم رہتے تھے اور وہ پنی نسل کے سب سے بڑے صحافی تھے، انہوں نے نے دی انڈی پنڈنٹ میں جو شمع جلائی تھی تھی وہ روشن رہے گی۔ بی بی سی: آئرلینڈ کے صدر مائیکل ڈی ہگنز نے کہا ہے کہ دنیائے صحافت اور بالخصوص مشرق وسطیٰ پر تبصرہ کرنے والوں نے اپنے ایک عمدہ ترین تجزیہ نگار کو کھو دیا ہے، رابرٹ فسک کو زیادہ شہرت عراق کے خلاف جنگ مسلط کرنے پر ان کی تنقیدی رپورٹنگ اور امریکی حکومت کے عراق کے پاس تباہ کن ہتھیاروں کے بیانیہ کو چیلینج کرنے پر ملی، اس بیانیہ نے 2003 میں عراق پر قبضہ کا گراونڈ ورک کا کام کیا تھا آپ امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیوں کے ناقد تھے، دی ٹائمز لندن: رابرٹ فسک کو سات مواقع پر برٹش پریس ایوارڈز میں سال کا بین الاقوامی صحافی نامزد کیا گیا اور وہ دومرتبہ سال کے بہترین رپورٹر قرار دیے گئے 1999 میں انہیں اورول پرائز Orwell 2002 میں مارٹھا گیلہورن پرائز Martha Gellhorn prize اور تین موقعوں پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے یوکے میڈیا ایوارڈ دیے گئے، جون میں وہ ایک دستاویزی فلم، دس از ناٹ اے مووی کا موضوع تھے_ ان کی سوانح عمری میں ان کی یہ انفرادیت بیان کی ہے کہ وہ کہانی کے دونوں رخ سنانے پر یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ انہوں نے متاثرہ شخص کے نقطہ نظر سے لکھا ہے، ان کے نزدیک ایک صحافی کا کام’’اتھارٹی‘‘ سے سوال کرنا ہے، ان کا کہنا تھا کہ غلاموں کی تجارت کے وقت انہوں نے غلاموں کے انٹرویوز کیے تھے غلاموں کے جہاز کے کپتان کے نہیں، یعنی مظلوموں کا نقطہ نظر سامنے لاتے تھے ، 1982 کے صابرہ اور شاتیلا پناہ گزین کیمپوں میں ہونے والے قتل عام کے بعد انہوں نے عیسائی فالنج ملیشیا اور ان کے اسرائیلی سرپرستوں کی بجائے فلسطینی بچ جانے والوں سے بات کی ، فِسک کے لئے المیہ یہ تھا کہ اس تجربے نے ہمیشہ کے لئے ان کے نقطہ نظر کو بدل دیا ، جب کہ وہ ایک عمدہ شاعرانہ طرز کے مصنف تھے، انہوں نے فلسطینی عوام کی حالت زار کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ پیدا کر دیا اور اسرائیلی حکومت اور اس کے اتحادیوں بالخصوص امریکہ کے لیے ناپسندیدگی کا جذباتی جنون پیدا کیا جس باعث وہ نیوز رپورٹنگ میں واقعات اور ان کے سیاق و سباق کو جذبات سے ہٹ کر پیش کرنے سے قاصر تھے کچھ مبصرین کے نزدیک فسک ایک ہیرو تھے، بہادری سے ان جگہوں پر پہنچ جاتے جہاں دوسرے صحافیوں کو جانے اور سوالات پوچھنے میں خوف اور خدشات مانع رہتےتھے بعض کے نزدیک وہ مشرق وسطی کے بارے میں اپنی رپورٹنگ میں ہسٹیریا اور مسخ کا مرتکب تھے، ’’دی سپیکٹیٹر‘‘ میں ایک مبصر نے رائے دی ہے کہ جو بات فِسک کو نمایاں کرتی ہے وہ خود ان کی اپنی صداقت ہے، 2003میں عراق پر اتحادیوں کے حملے کے دوران برطانوی لیبر وزیر دفاع جیوف ہن کے نزدیک دی انڈیپنڈنٹ اخبار میں فِسک کی رپورٹس بہت ہی جانبدار تھیں چند دیگر واقعات سے بھی واضح کیا گیا ہے کہ ان کی بعض رپورٹس اعلیٰ سطح پر متنازع بھی رہی ہیں تاہم مشرق وسطیٰ کی ثقافت، روایات کے متعلق ان کی گہری معلومات اور مطالعہ انہیں ایک اہم شخصیت بناتا ہے، برطانیہ میں کینٹ کے علاقے میں پیدا ہوئے کیریئر کا آغاز سنڈے ایکسپریس میں فلیٹ اسٹریٹ سے کیا، دی ٹائمز لندن کے لئے بھی صحافتی خدمات انجام دیں ، ایران و عراق عرب اسرائیل، الجزائر، افغانستان تنازعات، صدام حسین کےکویت پر قبضہ سمیت خطے کی تقریبا ہر بڑی کہانی کا احاطہ کیا، امریکی حملے اور عراق پر قبضہ، عرب بہار اور شام کی خانہ جنگی کی بھرپور کوریج کی ان کی رپورٹنگ نے انہیں متعدد ایوارڈز سے نوازا بعض رپورٹس متنازع بھی بنیں، خاص طور پر شام کے تنازعہ پر ان کی کوریج پر بعض حلقوں کی جانب سے ان پر تنقید کی جاتی رہی ہے، تاہم وہ ایک تاریخی صحافتی ورثہ چھوڑ کر گئے ہیں ان کی ایک تصنیف دی گریٹ وار فار سولائزیشن: دی کنکویسٹ آف مڈل ایسٹ ہے ،The Great War for Civilisation:The Conquest of the Middle East اس میں رابرٹ فِسک نے مشرقِ وسطی کے تنازعات کا باعث بننے والے واقعات کے بارے میں ایک عینی شاہد کے طور پر تجزیہ کیا ہے یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کی رابرٹ فسک تیس سالوں سے رپورٹنگ کی، ان کی عمدہ داستان مشرق وسطی کے انتہائی غیر مستحکم خطوں پر پھیلی ہوئی ہے، رابرٹ فسک کی قابل ذکر تاریخ جنگ کے ایک صحافی کی بھی کہانی ہے ۔ انڈی پنڈنٹ آن سنڈے نے جس پر لکھا تھا کہ یہ بہت شاندار اور موثر طور پر لکھی گئی ہے۔ نیو سٹیٹس مین نے لکھا تھا کہ یہ ایک ریمارک ایبل بک ہے، واشنگٹن پوسٹ کے مطابق بھی اس کتاب کی اہمیت دوچند ہے۔ بی بی سی: فسک امریکہ، اسرائیل اور مغربی ممالک کی خارجہ پالیسی کے سخت ناقد تھے جس باعث وہ مختلف ملکوں میں متنازع بھی رہے ہیں، دی گریٹ وار فار سیویلائزیشن میں مشرق وسطی کی تاریخ لکھتے ہوئے برطانوی، امریکی اور اسرائیلی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا، لبنانی جنگ کی تاریخ پر پٹی دی نیشن Pity the Nation بھی پش کی ہے، ان کی ایک مشہور تصنیف دی اہج آف دی واریرز The Age of the Warrior ہے جو دی انڈی پنڈنٹ میں ان کے ’’کامنٹ‘‘ نقطہ ہائے نظر پر مشتمل ہے۔
تازہ ترین