محمد فاروق دانش
نوجوان جو پاکستان کا مستقبل ہیں۔ اگر مستقبل کے معمارو ں میںعزم وجزم بیدار ہو تو اُن کے لیے کارہائے نمایاں انجام دینے میں کوئی مشکل پیش نہ آئےلیکن دیکھا گیا ہے کہ اکثر نوجوان جلد ہی نا امیدہو جاتے ہیں ۔ وہ اپنے اردگرد جائزہ لیتے ہیں تو انھیں کوئی ایسی شخصیت نہیں ملتی ،جسے وہ مثالی قراردے سکیں۔
اپنے بہتر مستقبل کے لیے تگ ودو تو کرنا چاہتے ہیں لیکن منزل کا تعین کرنے میں کام یاب نہیںہوتے۔ صلاحیتوں کے باوجود ان کا ادراک نہیں رکھتے اور پھر جلد ہی مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر نوجوان علامہ اقبال کی شخصیت، ان کے پیغامات خطبات اور شاعری جو انہوں نے بالخصوص نوجوانوں کے لیے لکھی ہے، سے استفادہ کریں تو انہیں اپنی راہ متعین کرنے میں آسانی ہوگی۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نوجوانوں کے لیے علم و دانش کا مخزن ہیں، آپ نے نوجوانوں کو انقلابی پیغام کی طرف ابھارا، سوچنے کی فکر دی۔ آپ جانتے تھے کہ قوم کا مستقبل نوجوان نسل ہے، جو تعلیم یافتہ،باصلاحیت اور روشن دماغ ہوگی توروشن مستقبل ہوگا، گویا نسلِ نو کی ترقی قوم کے مستقبل سے وابستہ ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ نسل نو سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئے اُفق تک رسائی حاصل کرے۔ جو کام اسلاف کے ہاتھوں انجام کو نہیں پہنچے وہ نوجوانوں کے ہاتھوں پایۂ تکمیل تک پہنچ سکیں۔
علامہ اقبال کے دل سے ہمیشہ نوجوانوں کے لیے دعا نکلتی تھی۔
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق ،میری نظر بخش دے
اقبال نے نوجوانوں کو خودی کے تصور سے آشنا کرایا ۔ وہ نوجوان کو رزقِ حلال اور صدقِ مقال شرم و حیا ذکر و فکر کی نصیحت کرتے ہیں۔آپ نے قوم کی راہ نمائی کے لیے مستقبل کی قربانی دینے کو ترجیح دی، انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونکی اور خود بھی عملی طور پر تشکیل پاکستان کے مشن میں شریک ہوئے۔ان کی شاعری میں نوجوان نسل کے لیے تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے سارے پہلوئوں کا احاطہ ملتا ہے۔ آپ مروّجہ تعلیمی نظام کی خرابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ، تعلیم ،معبودِ حاضر کی عبادت کی بات تو کرتی ہے اور جو معبودِ غائب یعنی ذاتِ برحق ہے ، سے دور کرتی نظرآتی ہے۔
علامہ اقبال چاہتےتھے کہ نوجوان اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں اور بڑے قومی مقاصد کے لیے اپنے آپ کو دوسروں پر غالب کرنے کی کوشش کریں اور سماج سے ہر قسم کی برائی کو ختم کرکے مثالی معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں، جس میں امن سلامتی ،برداشت رواداری اور اخوت، سخاوت اور محبت جیسی خوبیاں موجود ہوں۔ نوجوانوں کے خیالات بلند ہوں، انسان کامل اور مرد مومن بننے کی خواہش دل کے اندر موجود ہو،اسی لیے کہتے ،
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
نوجوانوں کو نگاہ اپنے مقصد پر رکھنی ہے۔ جیسے شاہین کی نگاہیں اس وقت تک اس کے شکار پر رہتی ہیں جب تک کہ وہ اْس کو پا نہیں لیتا۔شاہین کے عزائم بہت بلند ہوتے ہیں۔یہی عزائم اقبال نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔
’ پاکستان‘، خوابِ اقبال ہے، جس کی تعبیر آج کے نوجوانوں نے کرنی ہے ۔ یقیناً پاکستانی نوجوانوں میں ایک عزم و حوصلہ موجود ہے لیکن انھیں تربیت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ تعمیر پاکستان کے لیے نوجوانوں کو قلم اور کتاب سے رشتہ استوار کرنا ہوگا، علمی صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہوئے غفلت اور لاپروائی کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔
جب ہی منزل تک رسائی ممکن ہے۔علامہ اقبال نو جوانوں سے یہ امید رکھتےتھے کہ وہ ان ہی جیسے فکر واحساس کو دل و دماغ میں جگہ دیں ۔ وہ آنے والے حالات کی پیش بینی کرتے ہوئے علوم وفنون کے حصول اور قوم کے لیےان کے استفادے کی صورت پیدا کریں جو بزرگوں کے دور میں سامنے نہیں آسکے۔ اقبال ایک مثالی نوجوان کا نقشہ کھینچتے ہیں، جس کے اندر خدا کا تصور موجود ہو، مگر وہ نوجوان ظاہری اور باطنی طہارت سے خالی نہ ہو۔
علامہ اقبال نے اپنے کردار سے بھی یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کہ انھوں نے غلامی کی زنجیروں کو اپنی نوجوانی کے دور میں توڑنے کا سلیقہ بھی سکھایا ۔ یہی طرز فکر علامہ اقبال کا تہذیبی ورثہ ہے۔ اپنے کردار و عمل پر تنقیدی نظر ڈالنے کی صلاحیت پیدا کرلیں گے تو یقیناً قدرت آسانیاں پیدا کرے گی اور مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت حاصل کرسکیں گے۔وہ مغربی تہذیب کی عارضی چکا چوند کو مسلم نوجوانوں کے لیےانتہائی نقصان دہ سمجھتے تھے،کیونکہ یہ ظاہری چمک دمک روحانی اقدار سے ہٹ کر صرف مادی ترقی کی طرف لے جاتی ہے،جبکہ اسلامی تہذیب اور ہمارے اسلاف کی تعلیمات ایک پائیدار روحانی ترقی اور انسانی بھلائی کے دروازے کھولتی ہیں۔
اقبال نے مسلم نوجوانوں کو شاہین سے اسی لیے تشبیہ دی کہ ،عام پرندوں کی طرح نیچی پرواز اس کے شایانِ شان نہیں۔نوجوانوں میں بلند پروازی کی صفت پیدا کرنے کا مطلب بھی یہ ہے کہ ان کے مقاصدعظیم ہوں،ان کی سوچ بلند ہو۔ وہ دوراندیش ہوں، وہ کسی ایک جگہ بیٹھ کر ترقی اور عظمت کے خواب دیکھنے کے بجائے علوم و فنون کے حصول کے لیے ،ترقی اوربہتری کے مواقع دنیا میںجہاں بھی نظر آئیں ،رسائی حاصل کرنے کی جدوجہد کریں۔نوجوان اگر علامہ اقبال کی فکر سے رہنمائی حاصل کریں تو یقینا ًمثالی اور معیاری انسان بن کر پاکستان کی بہتر خدمت کرکے ملک کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔
آج ملک و قوم کو جو مسائل اور چیلنجز درپیش ہیں ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں بروئے کار لانا ہوگا۔اپنی قوت اور علم کو کام میں لانا ہوگا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا نوجوان طبقہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے کافی حد تک باخبر ہے۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کے عفریت سے جنگ میں برابر کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کے نوجوان وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے علامہ اقبال کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ ان میں وہ خوبیاں اور اوصاف پیدا ہو سکیں جو حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے لازم ہوتی ہیں ۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:
زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میںآپ اپنےتلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔
ہمارا پتا ہے:
’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔