• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن اور نومنتخب نائب صدر کمالہ ہیرس کو الیکشن میں کامیابی پر مبارک باددیتے ہوئے درست طور پر واضح کیا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ طویل مدتی دوستی اور باوقار تعلقات جاری رکھنےکا خواہاں ہے۔ صدر عارف علوی کا کہنا ہے کہ وہ عالمی سطح بالخصوص افغانستان اور پورے خطے کے امن کے لئے بہتر امریکی کوششوں کے منتظر رہیں گے۔ قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نومنتخب امریکی صدر کے لئے ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے یہ واضح کرچکے ہیں کہ افغانستان میں پائیدار امن کی کوششوں میں پاکستان اپنا سہولت کار کا کردار جاری رکھے گا۔ سپر پاور امریکہ کی 20جنوری 2021ء سے باضابطہ طور پر باگ ڈور سنبھالنے والی نئی قیادت کے نام یہ پیغامات ایک ایسے ملک کی قیادت کی طرف سے گئے ہیں جو جنوبی ایشیا میں واقع ہے، جو وسطی ایشیا کو مشرق وسطیٰ سےملانے والی راہداری کی حیثیت رکھتا ہے اور جو گوادر بندرگاہ سمیت اپنے محل وقوع کے باعث مشرق اور مغرب کے درمیان پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ پیغام ایسے ملک کی طرف سے گیا ہےجس نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں نمایاں ترین کردار ادا کیا ہے اور افغانستا ن میں قیام امن کی کوششوں میں جس کے مثبت کردار سے انکار ممکن نہیں۔ ایسے عالم میں کہ جوبائیڈن کی کامیابی پر دنیا کے اکثر ممالک کی طرف سے خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے اور بعض ممالک تاحال اپنے ردّعمل پر غور کررہے ہیں ، پاکستان کی قیادت اپنی طویل مدتی دوستی کے حوالے سے اور کرۂ ارض کے امن کے مفاد میں عالمی سطح بالخصوص افغانستان اور پورے خطے کے مفاد میں بہتر امریکی کوششوں کی ضرورت و اہمیت اجاگر کرتی ہے تو اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ خطے میں انسانی حقوق کی بدترین حد تک پامالی اور کشیدگی بڑھانے کے ضمن میں بعض عناصر کی دانستہ کوششوں کے حوالے سے واشنگٹن کی طرف سے مزید چشم پوشی کا سلسلہ جاری رہنا کسی طور پر بھی عالمی امن اور خوداُس امریکہ کے مفاد میں نہیں جس کو محفوظ بنانے کی جنگ میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ اگر چہ سپرپاورز کے حوالے سے ایک سابق امریکی وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈلس کا یہ تبصرہ تاریخی حوالہ کا درجہ اختیار کرچکا ہے کہ ’’ہمارا مستقل کوئی دوست نہیں ہوتا، ہم صرف امریکی مفادات مدنظر رکھتے ہیں ‘‘ تاہم ملکی مفادات کے تحفظ کےمذکورہ اصول کو سامنے رکھتے ہوئے بھی انسانی حقوق اور دنیا کو جنگ سے بچانے کے جذبے کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔اقوام متحدہ کا قیام اسی جذبے کا مرہون منت ہے۔ منتخب امریکی صدراقتدارکی منتقلی کے لئے جو ٹیم ترتیب دے رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے مبصرین کے یہ تجزیے درست معلوم ہوتے ہیں کہ وہ اعتدال پسند شخصیت کے حامل ہیں اور انسانی حقوق کے تحفظ پر یقین رکھتے ہیں۔ افغانستان میں امن عمل کو منطقی تکمیل تک پہنچانے کا کام انہیں ورثے میں ملا ہے جبکہ کشمیریوں کی آزادی و خودمختاری اور دیگر انسانی حقوق کے حوالے سے بھی وہ واضح موقف رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب جب اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ جوبائیڈن انتظامیہ مسئلہ کشمیر پر توجہ دے تو اُس میں یہ توقع مضمر ہے کہ نومنتخب صدر ،جو تفرقہ پھیلانے کی بجائے لوگوں کو آپس میں ملانے پر یقین رکھتے ہیں،عالمی امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ بننے والے مسئلہ کشمیر کے حل پر توجہ دے کر پاک بھارت کشیدگی دور کریں گے۔دنیا بھر میں سب سے زیادہ کشیدگی کے حامل اس خطے میںامن کے لئے فضا سازگار بنائیں گے۔ امریکہ کے اندر ہی نہیں دنیا بھر میںمنافرت و تعصبات ختم کریں گے اور امریکہ کا وقار بحال کریں گے۔

تازہ ترین