وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔
ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مزید حکومتی جلسے نہ کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے دوران اجلاس کہا کہ ایک طرف کورونا وائرس کا پھیلاؤ تیز ہوگیا ہے اور دوسری طرف ہم بھی جلسے کررہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اسد عمر نے دوران گفتگو رائے دی کہ جلسے کورونا وائرس پھیلے کے باعث ہمارے گلے پڑسکتے ہیں۔
اس پر وزیر دفاع پرویز خٹک نے رائے دی کہ رشکئی کا جلسہ کرلینے دیں، باقی جلسے بے شک منسوخ کردیں۔
ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے جلسوں کی منسوخی سے متعلق اسد عمر کی تجویز سے اتفاق کیا، کابینہ خدشات کے باعث رشکئی کا جلسہ بھی منسوخ ہونے کا امکان ہے۔
کابینہ اجلاس میں اربوں روپے کی ماہانہ سبسڈی کو سیاسی رشوت قرار دیتے ہوئے اس رجحان کو ختم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق کابینہ اراکان نے رائے دی کہ سبسڈی صرف غریب ترین لوگ اور پسماندہ علاقوں کا حق ہے، زیادہ آمدن والے شعبوں کو بھی شئیر کے طور پر سبسڈی دینے میں حرج نہیں۔
گندم کی امدادی قیمت کے تعین کے معاملے پر کابینہ تقسیم رہی، 4 وزراء کی رائے ایک طرف تھی جبکہ باقی کابینہ دوسری طرف تھی، اختلاف کرنے والے وزراء نے گندم کی امدادی قیمت 1800 روپے مقرر کرنے کی حمایت کی۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی ندیم افضل چن نے بھی گندم کی قیمت 1800 روپے کرنے کے مطالبے کے حمایت کی اور کہا کہ گندم کی امدادی قیمت نہ بڑھی تو گندم کی پیداوار کم ہوجائے گی۔
ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر شیخ رشید گندم کے قیمت 1800 روپے مقرر کرنے کے مخالفت کی اور کہا کہ گندم 1800 ہوئی تو دو ماہ میں گندم کی قیمت آسمان کو چھولے گی۔
وفاقی وزیر اعظم سواتی گندم کی قیمت کے معاملے پر وزیراعظم کے ہم زبان رہے، انہوں نے عمران خان کی اجازت سے کابینہ اجلاس میں کھڑے ہوکر بات کی اور استفسار کیا کہ آٹا مہنگا نہیں ہونا چاہیے، اگر وہ مہنگا ہوگیا تو غریب لوگ کیسے خرید سکیں گے؟
انہوں نے مزید کہا کہ گندم کی امدادی قیمت بڑھانے کے پیچھے بھی مافیا متحرک ہے، ملک مزید مہنگائی برداشت کرنے کا متحمل نہیں۔
دوران گفتگو وزیراعظم نے کہا کہ ایسے اقدامات اٹھائیں گے کہ گندم اور آٹے کا کوئی بحران نہ ہو، مہنگائی میں کمی کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔
وفاقی کابینہ نے گندم کی امدادی قیمت 1650 روپے مقرر کرنے کی منظوری دے دی۔