• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

حکمران اور اپوزیشن جلسوں نے انتخابی ماحول پیدا کردیا

ملک کی 11بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم کے پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بڑے شہروں میں پاور شو کے مظاہرے کے بعد حکمران جماعت پی ٹی آئی کے علاوہ جماعت اسلامی اور پاک سرزمین سمیت دیگر جماعتیں میدان میں نکل آئی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے سوات اور حافظ آباد میں بڑے بڑے جلسے منعقد کر کے اپنی سیاسی طاقت شو کروا کر اپوزیشن جماعتوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے لیکن جماعت اسلامی نے کے پی کے میں او رپاک سرزمین پارٹی نے کراچی میں بڑے بڑے جلسوں میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی حکومتوں کی کارکردگی کو بے نقاب کر کے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ 

حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے جلسہ بمقابلہ جلسہ نے ملک میں انتخابی ماحول پیدا کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کے بیانیہ سے بعض سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ سیاسی جماعتیں پرو اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ دو دھڑوں میں تقسیم ہونے سے ڈائیلاگ کی بجائے جوڈو کراٹے پر اتر آئی ہیں اور ملکی سیاست بند گلی میں جا رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اپنا سارا زور حکومت بچانے اور حکومت گرانے پر لگا رہی ہیں اس حوالے سے جنوری اور فروری کے دو ماہ بڑے اہم قرار دیئے جا رہے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات سے قبل سیاسی مطلع بالکل صاف ہو جائے گا۔ 

اس سے پہلے گلگت بلتستان کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اور ان کی حریف اپوزیشن جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ماضی کی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں حکمران جماعتوں کے علاوہ پی ٹی آئی میں سے کون گلگت بلتستان میں حکومت بنائے گی۔ گلگت بلتستان کے انتخابات کے نتائج ملکی سیاست کا رخ طے کریں گے یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے گلگت بلتستان میں انتخابی کامیابی کے لئے کئی ہفتوں سے وہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ 

مریم نواز اور ان کے والد میاں نواز شریف کے قومی اداروں کے بارے بیانیہ نے پی ڈی ایم کی بعض جماعتوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اپوزیشن کی لڑائی عوام کو مہنگائی، بے روزگاری سے نجات دلانے اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے نہیں صرف اپنے مفادات کے لئے ہے۔ اس بیانیہ سے مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی کئی پرانے ساتھیوں کو تحفظات ہیں مگر وہ حالات کا رخ دیکھ کر ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں تو دوسری جانب حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو اپنے اندر اور اتحادیوں سے خطرے کی بُو آنے لگی ہے۔ 

حکومتی حامی جماعت کے سربراہ اختر جان مینگل حکومت کو چھوڑ کر پی ڈی ایم میں شامل ہو چکے ہیں جبکہ حکومت کی ایک اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کو بھی وزیراعظم عمران خان اور ان کے بعض وزراء سے شدید تحفظات ہیں جن کا اظہار مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے وزیراعظم کے ظہرانے میں شرکت نہ کر کے کرایا ہے کہ وزیراعظم اور ان کی جماعت پی ٹی آئی اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) سے وفاق اور پنجاب میں طے شدہ معاہدے پر عملدرآمد کرنے سے قاصر رہی ہے اور کسی بھی اہم فیصلے میں ان سے مشاورت نہیں کی جاتی۔ اگر دیکھا جائے مسلم لیگ (ق) کے چوہدری برادران منجھے ہوئے سیاستدان اور حکومت کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ان کو انڈر اسٹیمیٹ کرنا وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کی ناتجربہ کاری کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ چوہدری برادران سے مشوروں سے مشکلات سے بچ سکتے تھے جن کا آج حکمران جماعت کو سامنا ہے۔

گورنر پنجاب چوہدری سرور اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بڑی حد تک چوہدری برادران کے گلے شکوے دور کرنے کی کوشش کی مگر وزیر اعظم عمران خان کے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کو مسلسل نظر انداز کرنے پر ان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو انہوں نے وزیر اعظم کے ظہرانے کا بائیکاٹ کر کے اپنے وجود کا احساس دلایا اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر وزیر اعظم اور ان کے کچھ ساتھیوں کو چوہدری برادران یا چوہدری مونس الٰہی کو وزارت دینے پر کوئی تحفظات ہیں تو وزیر اعظم کی کابینہ میں کونسے سارے فرشتے ہیں۔ 

جن پر انگل نہیں اٹھائی جا سکتی اور آج شوگر، گندم بحران سے حکومت کو دور چار کرنے والے پی ٹی آئی کے اندر کے ہی لوگ تھے جن کی بدولت وزیر اعظم کی ملک کو معاشی بحران سے نکال کر اپنے پائوں پر کھڑے کرنے کی دو سال کی محنت پر پانی پھیر دیا ہے جس کو جواز بنا کر اپوزیشن نے وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے لئے خطرہ بن گئی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب سے تنگ تبدیلی کی حمایت کرنے والے عوام کی اکثریت حکومت کو کوسنے پر مجبور ہے۔ 

اب بھی وقت ہے کہ وزیراعظم اپنے اتحادیوں بالخصوص چوہدری برادران اور جہانگیر ترین سے اپنے اچھے تعلقات استوار کریں اور دونوں جماعتیں یکجا ہو کر اپوزیشن کا مقابلہ کریں ورنہ وفاق اور پنجاب میں ان کی حکومت مسلم لیگ (ق) کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے اور مڈٹرم الیکشن کی راہ ہموار ہونے میں دیر نہیں لگے گی کیونکہ حکومت کو آج بھی بڑا خطرہ اپوزیشن سے نہیں اس کی بیڈ گورننس سے ہے، سینیٹ کے الیکشن سے قبل حکومت سے باہر چھوٹی سیاسی جماعتیں بڑی سے بڑی قیمت چکانے کو تیار بیٹھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی تحریک حکومت کی ملکی مسائل سے توجہ ہٹانے میں کامیاب ہو گئی ہے اور حکومت کو بھی اپنے سارے وسائل اور توجہ پاور شو کرانے پر مرکوز کرنا پڑی ہے۔

مسلم لیگ (ن) پی ڈی ایم کا 13دسمبر کو لاہور میں ہونے والا جلسہ تاریخ ساز بنانے کے لئے تمام تر توانائیاں صرف کر رہی ہے۔ لاہور کا جلسہ فیصلہ کرے گا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی یا نہیں؟

تازہ ترین
تازہ ترین