• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی

ارشادِ ربّانی ہے: اور (اے پیغمبر ﷺ) جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دیجئے کہ) میں تو (تمہارے) قریب ہوں۔ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو انہیں چاہیے کہ میرے احکامات کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں ،تاکہ نیک رُتبہ پائیں (سورۃ البقرہ : آیت۱۸۶)

دعا کے لغوی معنی پکارنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں دعا رب تعالیٰ کے حضور اپنی مناجات پیش کرنے اور امید قبولیت رکھنے کے ہیں۔ انسان حیاتِ دنیاوی میں مدوجزر کا شکار رہتا ہے ۔ اس پر غمی خوشی ‘دکھ پریشانی ‘ مصائب و آلام یا دشمنوں کا خوف‘ بیماریاں ناچاقیاں اور طرح طرح کے حوادث وارد ہوتے رہتے ہیں۔انسان اپنی فطری کمزوریوں کے سبب مجبور و محتاج ہے کہ کوئی صاحب قدرت و اختیار ذات اس کے دکھوں کا مداوا کرنے والی ہو۔

اللہ رب العالمین جو ہمارا خالق و مالک ہے، وہ ہماری حاجات و ضروریات سے نہ صرف مکمل طور پر واقف ہے ‘ بلکہ وہی حاجت روائی و مشکل کشائی پر قادر مطلق بھی ہے۔ لہٰذا انسان پر لازم ہے کہ وہ غمی خوشی ہر حال میں اپنے رب کو یاد رکھے اور صبر و شکر کے جذبوں کے ساتھ اسی سے دامن امید وابستہ رکھے کہ وہی مختار کل ہے۔ دعا مانگنا بندے کی عاجزی کااظہار اور اللہ مالک الملک کے متصرف الامور ہونے کی دلیل ہے۔ دنیاوی ساہوکار مانگنے سے ناخوش اور ناراض ہوتے ہیں، جبکہ ہمارا خالق و رزاق مانگنے سے خوش ہوتا ہے، جیسا کہ مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد رسول اللہ ﷺ کی زبانی اعلان فرما دیا کہ میرے بندو ں کو بتا دیجئے کہ تمہارا یہ گمان کہ اللہ ہم سے کس قدر دور ہے کہ ہم چلّاچلّا کر اسے پکاریں یاکس قدر قریب ہے کہ ہم اسے چپکے چپکے دل ہی میں پکاریں تو سن لو کہ تمہارا رب تم سے کوئی دور نہیں، بلکہ تمہارے بہت قریب ہے یعنی تم اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں،بلکہ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کے انتہائی نزدیک ہوتا ہوں اور اپنے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہوں۔ دعا مانگنا اظہار بندگی کی علامت اور اس سے اعراض کرنا تکبر کی نشانی ہے۔ جیساکہ ایک مقام پر فرمایا گیا: اور تمہارے ر ب نے فرمایا ہے مجھ سے دعا مانگا کرو میں تمہاری دعا قبول کروںگا ۔ بے شک ،جو لوگ ازراہ تکبر میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں یقیناً وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔(سورۃ المومن)

معلوم ہوا کہ دعا مانگنا اور رب سے امیدیں وابستہ رکھنا عین عبادت ہے۔ جیساکہ رحمۃ للعالمین ﷺ نے فرمایا کہ دعا ہی عبادت ہے ،نیز فرمایا دعا عباد ت کا مغز ہے۔(ترمذی) دعا مانگنا اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں داخل کر دیا ہے، چنانچہ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خود بخود اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگ جاتاہے اور اس کے آگے التجائیں کرتا ہے۔

رحمت عالم ﷺ نے فرمایا، تم میں سے جس شخص کے لئے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا (یعنی دعا مانگنے کی توفیق عطا کر دی گئی)اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے۔ اسی طرح فرمایا کہ دعا کے سو اکوئی چیز قضا (یعنی تقدیر کے فیصلے) کو رد نہیں کر سکتی۔(ترمذی) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ طے ہوتا ہے کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ لے گا، اس لئے اس بلا سے بچ جائے گا۔قضا و قدر سے بچنے کی کوئی تدبیر فائدہ نہیں دے سکتی، بجز یہ کہ اللہ رب العالمین سے دعا مانگی جائے۔ دعا اس آفت و مصیبت میں بھی نفع پہنچاتی ہے جو نازل ہو چکی ہواور اس آفت میں بھی جو ابھی وراد نہیں ہوئی ہے۔کوئی مصیبت یا پریشانی نازل ہونے کو ہوتی ہے کہ اتنے میں دعا کرنے والے کی دعا اس سے جاملتی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر کے فضل و کرم سے انسان اس دعا کی بدولت آنے والی مصیبت سے بچ جاتا ہے۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ دعائوں کا خصوصی اہتمام کریں اور صبر و شکر کے ساتھ اظہار بندگی بجا لائیں ۔

دعا مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں سیدنا زکریا علیہ السلام کا ذکر ہے۔ترجمہ! اے میرے رب میں تجھ سے دعا مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا (سورۂ مریم )آیت قرآنی سے واضح ہوا کہ رب سے مانگنے والا کبھی محروم نہیں رہتا، بلکہ رب کی رحمت اپنے دعا مانگنے والے بندوں کے شامل حال ہو جایا کرتی ہے۔

اخلاص کے ساتھ مانگی ہوئی دعاجو دل کی گہرائی سے نکلے وہ ذاتِ باری تعالیٰ کے اختیاراتِ کلی اور اس کی توحید والوہیت پر بندے کے ایمان کو ظاہرکرتی ہے۔ پورے بھروسے اور کامل یقین کے ساتھ اس ذات وحدہ لاشریک سے دعا مانگنا ہی اپنی عاجزی ‘ انکساری و بندگی اور رب تعالیٰ کی شان رحیمی اور شان کبریائی کا اقرار ہے۔چونکہ خود باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا مانگو ،میں دعائوں کا سننے والاہوں۔ اسے یہ بات پسند ہے کہ اس کی بارگاہ رحمت میں سجدہ ریز ہو اجائے ،اسی کے آگے دست سوال اور دامن حاجت دراز کیا جائے ،اس کے سامنے گڑ گڑایا جائے اوراسی سے مددمانگی جائے ۔ صدق دل سے مانگی ہوئی دعا کسی صورت میں بھی رائیگاں نہیں جاتی ۔ نہ جانے ہماری کس دعا کی قبولیت باری تعالیٰ کوکس صورت سے منظور ہو۔ اگر اس غفور الرحیم کے نزدیک قرین مصلحت ہو تو ہماری مراد فوراً پوری کر دی جائے ۔اگر فوراً مراد پوری کرنا قرین مصلحت نہ ہو تو مناسب وقت پر وہ مراد پوری کر دی جائے، ورنہ اس کا بہتر نعم البدل دنیا یا آخرت میں دے دیا جائے یا کسی آنے والی مصیبت و بلا کو ٹال دیا جائے۔

سرورِکائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا کہ بندۂ مومن رب کے حضور دعا کر کے کبھی نامراد نہیں رہتا۔ اگر دنیا میں اس کی مراد پوری نہیں ہوتی تو آخرت میں اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ایسے بندےکو اس قدر اجر عظیم عطا فرمائے گا کہ وہ بندہ خوش ہو جائے گا اور خواہش کرے گا کہ کاش میری کوئی دعا دنیا میں مقبول نہ ہوتی بلکہ تمام دعائوں کے ثمرات جنت میں حاصل ہوتے۔(حاکم)

دعائوں کے پورا نہ ہونے پر مایوس ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے، بلکہ دعائیں مانگتے رہنا چاہیے، البتہ دعائوں کی مقبولیت اور طلب دعا کے کچھ اصول اور آداب ہیں جنہیںہرحال میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اسی طرح دعائوں کے شرفِ قبولیت کے اوقات و مقامات بھی ہیںجب اور جہاں خصوصیت کے ساتھ دعائیں مقبول بارگاہ الٰہی ہوتی ہیں۔ لہٰذا دعائوں کے مستجاب ہونے کے لئے ان امور کا لحاظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ایمانِ کامل‘ خشیت الٰہی‘ تقویٰ‘ کسب حلال اور اعمال صالحہ اوامرونواہی کی پابندی‘ استقلال‘ صبر‘ راضی برضارہنا پورے خشوع و خضوع سے جائز امر کے لئے دعا مانگ کر صبر کے ساتھ اللہ کی رحمت پر توکل اور اس کی رضا پر سرتسلیم خم رکھنا جاہیے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ارحم ا لراحمین سی لو لگائے رکھے۔ اگر دعا پوری نہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کا اجر تو مل ہی جاتا ہے، بشرطیکہ انسان خود بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دعا سے ہاتھ نہ کھینچ لے، یا بے حقیقت سہاروں کی تلاش میں گم گشتہ راہ نہ ہوجائے۔

تازہ ترین