سچ تو یہ ہے کہ ہمیں بادشاہوں کی عادت پڑ گئی ہے۔ یہ صدیوں کی عادت چند سالوں اور عشروں میں ختم نہیں ہوسکتی۔ یہ طبیعت اور فطرت کا حصہ بن جاتی ہے۔ ایک مسلمان عوام کی تاریخ ہے، ایک مسلمان حکمرانوں کی تاریخ، مسلمان عوام کی تاریخ میں امت مسلمہ کے عالم ہیں، دانشور ہیں، فقیہ ہیں، محدث ہیں مُفسر ہیں، صوفی ہیں، اہل اللہ، غوث ، قطب اور ابدال ہیں، اہل فکر اور اہل نظر ہیں۔ امام جعفر صادق، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، شیخ عبدالقادر جیلانی، امام غزالی، امام فخر الدین رازی، مولانا جلال الدین رومی، شیخ مصلح الدین، سعدی ،شیرازی البیرونی، ابوسینا، فارابی، الکندی، ابن ہیشم، ابن رشد جیسے نابغہ روزگار علماء، فقہا، مشائخ، سائنسدان اوراپنے اپنے علوم کے ماہر ہیں کہ جن کے تذکرے کے بغیر اسلامی تاریخ کا تذکرہ مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کے بغیر اسلامی تاریخ ایسے ہے جیسے خوشبو کے بغیر پھول اور روشنی کے بغیر سورج اور چاندنی کے بغیر چاند ہے۔ لیکن ہمارا المیہ پھول دیکھئے کہ جب بھی تاریخ لکھی اور پڑھائی جاتی ہے تو اس میں اکثر بادشاہوں کے تذکرے ہوتے ہیں۔ بادشاہت کا دور بنوامیہ سے شروع ہوا پھر عباسیوں نے ان کی جگہ لی اور پانچ سو سال تک عیاشیاں کرتے رہے ان میں کچھ اچھے اور باصلاحیت حکمران بھی تھے لیکن اکثر موروثی شہنشاہیت کی بیماریوں میں مبتلا ،ان کے آخری سو سال تو برائے نام ”خلافت“ ہی بن کر رہ گئے۔ یہ تعداد میں خلیفہ بن کر بیٹھے رہے اور پورے ملک میں مختلف علاقائی حکمران اور سلطان حکومت کرتے رہے جنہیں یہ خلعت فاخرہ دے کر نوازتے رہے۔ ان خلفاء کے لئے جمعہ کے خطبہ میں تعریفی اور توصیفی کلمات اداکئے جاتے اور ان کی درازی عمر کے لئے دعا کی جاتی تھی۔ جس طرح آج کل سعودی عرب میں مسجد الحرام اور مسجد النبوی کے سعودی حکومت کے نامزد کردہ امام صاحبان اپنے بادشاہوں اور ان کے بھائیوں اور اولادوں کے لئے دعا کے بغیر جمعہ کا خطبہ مکمل نہیں کرتے۔ عباسیوں کا اقتدار ہلاکو خان نے بغداد کو تباہ و برباد کرکے ختم کردیا لیکن ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کو اس کی خبر ہی نہ ہوسکی اور وہ وہاں دہلی کی جامع مسجد میں بغداد کے خلیفہ کی صحت تندرستی اور لمبی عمر کے لئے دعائیں مانگتے رہے، انہیں یہ خبر نہیں تھی کہ ہلاکوخان اور اس کی افواج نے عباسی خلیفہ کو قالین کے اندر لپیٹ کر ڈنڈے مار مار کر ختم کردیا ہے۔ یہ اس لئے ہوا کہ خلیفہ صاحب نے فرمایا کہ ”مجھے نہ مارنا اگر میرا خون بہا تو قیامت آجائیگی۔ ہم مقدس خون والے ہیں“ وحشی منگول قبائل سے تعلق رکھنے والے ہلاکو خان کی فوج نے کہا ٹھیک ہے ہم تہمارا خون نہیں بہائیں گے تمہیں قالین میں لپیٹ کر ماریں گے تاکہ تہمارے خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہے۔ اس کے بعد تقریباً چالیس سال تک مسلمانوں کی کوئی مرکزی حکومت نہ رہی پھر عثمان خان نے عثمانی سلطنت کی بنیاد رکھی اور تقریباً سات سو سال1924تک یہ حکومت مسلمانوں کی مرکزیت کی نمائندہ سمجھی جاتی رہی۔ اس کے بھی ابتدائی پانچ سو سال عروج اور تعمیر و ترقی کے سال تھے، آخری دو صدیاں تنزلی کا سفر جاری رہا حتٰی کہ آخری سو سال میں اسے ”یورپ کا مرد بیمار“ "Sick Man of Europe"کہا جاتا تھا۔
کیونکہ سلطنت کی شان وشوکت جاہ و جلال تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا دور مسلسل زوال پذیری کے عمل سے گزرہا تھا لیکن حکمران اپنے اپنے محلات میں داد عیش دے رہے تھے۔ ادھر ہندوستان میں اورنگزیب عالمگیر نے اپنے بھائیوں کے تلخ تجربات سے سبق اٹھا کر اپنے بیٹوں کو عسکری اور فوجی تربیت ہی نہ دی اس نے اورنگزیب مغلیہ سلطنت کا وہ نیک دل حکمران ہے جو ٹوپیاں سی کر گزارا کرتا ، فتاویٰ عالمگیری تیار کرواتا ، سکھوں کی کمر توڑتا، اس کے ساتھ ساتھ اپنے والد کو گرفتار کرکے آگرہ کے قلعہ کی تنگ و تاریک کوٹھری میں ڈال دیتا۔ اپنے بھائیوں کی آنکھیں نکلوا دیتا ہے، انہیں قتل کردیتا ہے اور آرام سے پچاس سال حکومت کرتا ہے لیکن جب اس دنیا سے جاتا ہے تو اس کے بعد مغلیہ کا کوئی بھی حکمران اس کی اچھی عادات و خصوصیات کو تو نہیں اپناتا البتہ اپنے ہی خاندان کے افراد کے خلاف سازش کرانا اور انہیں قتل کرادینا مغلیہ دور کے آخری ڈیڑھ سو سال میں بارہا نظر آتا ہے۔ لوگ کبھی ایک شہنشاہ کے قصیدے پڑھتے جو قتل ہوجاتا تو تخت نشین ہونے والے دوسرے بادشاہ کے گن گانے لگتے، کتابوں میں لکھا گیا کہ بادشاہ زمین پر اللہ تعالی کا سایہ ہوتا ہے ”ظل اللہ“ ہوتا ہے، یہ خود بھی اپنے آپ کو ”ظل الٰہی“ کہلاتے تھے، اور اپنی مخالفت کو کسی ایک شخص کی مخالفت نہیں ”ظل الٰہی“ یعنی خدائی سایہ کی مخالفت تصور کرتے تھے اس کے جو کوئی بھی مخالفت کرنے کی جسارت کرتا اسے سزا کے طور پر ٹکٹکی میں باندھ دیا جاتا یا کوہلو میں پیس دیا جاتا یا زنداں خانے کی کسی تاریک کوٹھڑی میں سسک سسک کر مرنے کے لئے پھینک دیا جاتا لیکن پھر بھی لوگ بادشاہ کی درازی عمر کی دعائیں مانگتے رہتے، ہمارے خطیب جمعہ کے خطبوں میں ان کی صحت اور سلامتی کے لئے محراب و منبر سے دست بدعا رہتے تھے۔
پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے مغلیہ سلطنت کے آخری حکمرانوں کی غلط کاریوں عیاشیوں، سرمستیوں اور انگریزی حکمران ”ایسٹ انڈیا کمپنی“ کی وظیفہ خوری کی عادت نے انہیں نکما اور سست کاہل اور بے کار بنادیا وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹر کے رحم و کرم پر رہ گئے۔ اس لئے جب انگریزی فوج کے سپاہیوں نے بغاوت کی اور اسلحہ لوٹ کر دہلی کے شاہی قلعہ میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں پہنچے اور اس کی قیادت میں استعمار کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بات کی تو بوڑھے بادشاہ نے سرد آہ بھری اور کہا کہ یہ دن بھی دیکھنے تھے، میں تو بوڑھا ہوگیا ہوں اور آرام سے مرنا چاہتا تھا لیکن تم لوگ مجھے آرام نہیں کرنے دو گے، کیونکہ بہادر شاہ اب حکمران سے ترقی کرتا ہوا شیخ طریقت بن گیا تھا اور اس کو وہم و گمان ہوگیا تھا کہ وہ مکھی بن کر جہاں چاہے پرواز کرسکتا ہے۔ لیکن جب میجر ہڈسن کی قیادت میں انگریزوں نے اس کو اور اس کے بیٹوں کو گرفتار کیا تو وہ کہیں نہ اُڑسکا اور زندگی کے باقی ایام رنگون کے ایک چھوٹے سے کمرے میں گزار کر دارفانی کو چھوڑ گیا، آخری وقت حسرت بھرے الفاظ اس کی زبان پر تھے:
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمیں نہ مل سکی کوئے یار میں
سلطنت انگلشیہ کو اس کے بعد وفادار بھی مل گئے اور نئے باج گزار بھی۔ انہوں نے انگریزی استعمار ”برٹش ایمپائر“ کو تقویت دینے کے لئے اپنے ہی لوگوں کا خون بہایا اور انہیں اعزازات سے نوازا گیا۔ انہیں جاگیروں سے مالا مال کردیا گیا۔ آج تک انہیں مراعات یافتہ اور اعزازات پانے والے خاندانوں کے افراد پاکستان میں مختلف پارٹیوں میں اپنی خاندانی ”ابن الوقتی“ کی روایات نبھاتے ہوئے الیکشن لڑتے آرہے ہیں اور عوام کو بے وقوف بنانتے ہوئے بھیس بدل بدل کر مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو غربت اور مسائل کی دلدل میں پھنساتے چلے گئے ہیں اب موقع آگیا ہے کہ ایسے غاصبوں اور لیٹروں سے جان چھڑائی جائے اور عہد نو کو آواز دی جائے، اقبال نے کہا تھا
سُلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو