تحریر: ہارون مرزا۔راچڈیل گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کیلئے انتخابات منعقد ہوگئےہیں، 24میں سے 23نشستوں پر ہونے والے گیلپ کے سروے میں سامنے آنے والی عوامی رائے کو انتہائی اہمیت کا حامل تصور کیا جا رہا ہے۔ گیلپ پاکستان اور پلس کنسلٹنٹ کی جانب سے گلگت بلتستان کے انتخابات کے حوالے سے علیحدہ علیحدہ سروے کرائے گئے جس میں لوگوں سے ان کی پسندیدہ جماعت سے متعلق رائے حاصل کی گئی جس کے مطابق گلگت میں تحریک انصاف‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کو بالترتیب مقبولیت حاصل ہے، 27 فیصد ووٹرز نے تحریک انصاف کو اپنی پہلی پسند قرار دیا، 24 فیصد نے پیپلز پارٹی اور 14 فیصد نے مسلم لیگ ن کو پسندیدہ جماعت قرار دیا، 6فیصد ایسے لوگ بھی سروے میں سامنے آئے جو کسی جماعت کو ووٹ دینے کے حق میں نہیں ہیں، گلگت میں مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما مریم نواز اور دیگر جماعتوں کے جلسوں نے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے، گلگت بلتستان وہ علاقہ ہے جہاں خواتین کو انتخابات میں حصہ لینے حتیٰ کہ ووٹ ڈالنے کو بھی معیوب تصور کیا جاتا ہے مگر یہاں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر ایک سعدیہ دانش نامی ایک خاتون بھی پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے جا رہی ہیں جن کا تعلق ضلع نانگیر سے ہے، ضلع تانگیر کو گلگت بلتستان کی خوبصورت ترین وادیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے مگر یہاں لڑکیوں کیلئے بنائے گئے تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے کے واقعات ہو چکے ہیں، گذشتہ برس ضلع دیامر میں 12 اسکول ایک ہی رات میں جلا دئیے گئے، ان میں سے تین تانگیر میں تھے، خواتین کی اکثریت کے پاس شناختی کارڈ تک نہیں نہ ان کے ووٹ کا اندراج ہو سکا یہ علاقہ اس خطے کے سب سے زیادہ قدامت پسند حصوں میں شمار ہوتا ہے،2009 میں یہاں پہلی بار انتخابات کے دوران ایک خاتون کے ووٹ ڈالنے کے لیے آنے کے بعد بدمزگی پیدا ہوئی جس پر جھگڑے میں چار افراد قتل ہو گئے اس واقعہ کے بعد خواتین ووٹ ڈالنے نہیں جاتیں، ایک خاتون امیدوار کے سامنے آنے پر صورتحال میں کیا تبدیلی آئے گی یہ تو وقت ہی طے کرے گااس مقصد کے تحت گلگت بلتستان کے الیکشن کو پر امن بنانے کیلئے صوبہ پنجاب سے 3ہزار، خیبرپختونخوا سے 2ہزار، سندھ سے 500اور بلوچستان سے 2ہزارپولیس اہلکار طلب کر لیے گئے ہیں، گلگت بلتستان کے ڈھائی ہزار اپنے اہلکار بھی قیام امن کیلئے تعینات کیے جائیں گے۔ سیکورٹی فورسز ‘ رینجرز اور فوجی دستوں سے بھی ضرورت پڑنے پر مددلی جائے گی ۔وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو مکمل آئینی حقوق اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کے ساتھ پاکستان کے صوبے کا درجہ دینے کی بازگشت بھی تقویت اختیار کر رہی ہے، وزیر اعظم عمران خان کا جلد دورہ بھی متوقع ہے، اس موقع پر اہم اعلان بھی کر سکتے ہیں۔ کابینہ کے وزیر علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ عمران خان گلگت بلتستان کے عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان سے مکمل الحاق کے وعدوں کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں صوبہ بننے کے بعد گلگت بلتستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے تحت بننے والے خصوصی اکنامک زون پر کام کی رفتار میں تیزی آئے گی۔ صحت، سیاحت اور تعلیم کے شعبوں میں نمایاں بہتری کی راہ ہموار ہو گی تاریخی طور پر گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ تھا مگر 1948 میں مقامی لوگوں کی مدد سے یہ پاکستان کے زیر کنٹرول آ گیا، تقریبا 15 لاکھ آبادی والے خطے کو اپنے دیو مالائی حسن، برف پوش پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اورپھلوں سے لدے باغوں کی وجہ سے دنیا میں ممتاز شہرت حاصل ہے۔ اس کی سرحدیں چین، انڈیا، تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں، جن میں سے تین ملک ایٹمی طاقت ہیں گلگت بلتستان، چین پاکستان اقتصادی راہداری کا دروازہ ہے، یہاں پاکستان کی جانب سے صوبائی نظام تو نافذ کیا گیا ہے جیسا کہ یہاں کا اپنا گورنر اور وزیراعلیٰ ہے لیکن قانونی اعتبار سے اس علاقے کو پاکستان میں وہ آئینی حقوق حاصل نہیں جو ملک کے دیگر صوبوں کو حاصل ہیں آئندہ انتخابات کے بعد اس کو اگر صوبے کا درجہ مل گیا تو یہ خطہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، ماضی میں یہاں مختلف قوانین کے تحت نظام چلایا جاتا رہا لیکن مقامی لوگوں کا ہمیشہ سے ہی مطالبہ رہا کہ پاکستان باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان کے ساتھ الحاق کر کے اسے مستقل طور پر پاکستان میں ضم کر لے کشمیری اس مطالبے کی پرزور مخالفت کرتے رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان متنازع علاقے کا حصہ ہے اور اسے اس وقت تک ایسا ہی رہنا چاہیے جب تک کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، گلگت بلتستان کے انتخابات پر تمام سیاسی جماعتوں کی نگاہیں مرکوز ہیں اور وہ اپنے امیدواروں کی کامیابی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں اب کون مقدر کا سکندر ٹھہرتا ہے، اس کا فیصلہ 15نومبر کرے گا۔