اپنے دور کے سپر اسٹار، چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کا نام ذہن میں آتے ہی کئی یادگار رومانی فلمیں اور نغمات، ماضی کی حسین اور سنہری یادوں کو تازہ کردیتے ہیں۔اداکاری پر تو ان کو کمال حاصل تھا ہی،لیکن گانے فلم بند کروانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ہماری فلم انڈسٹری کے شعبہ اداکاری کا تیسرا بڑا ستون چاکلیٹی ہیرو وحید مراد نے اپنی فنی زندگی میں بہت سے مختلف طرز کے کرداروں میں اپنے فن کے مظاہر پیش کیے، لیکن رومانی کردار نگاری میں وہ دیگر تمام ہیروز سے ممتاز نظر آئے۔یہی وجہ ہے کہ انہیں رومانس کا شہزادہ بھی کہا جاتا ہے۔انہوں نے شان دار اور یاد گار فلمیں پروڈیوس بھی کیں۔
وحید مراد نے اپنے ذاتی فلم بینر ’’فلم آرٹس‘‘ تلے گیارہ فلمیں پراڈیوس کیں، ان میں فلم انسان بدلتا ہے، جب سے دیکھا ہے تمہیں، ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان، سمندر، اشارا، نصیب اپنا اپنا، مستانہ ماہی، جال اور ہیرو شامل ہیں۔ پہلی فلم کے علاوہ دیگر دس فلموں کی موسیقی بے حد جان دار اور شان دار رہی اور ان فلموں کے نغمات آج بھی سماعتوں میں رس گھولتے ہیں۔ وحید مراد اپنی ذاتی فلموں میں کہانی کے ساتھ ساتھ موسیقی کو بھی بڑی اہمیت دیتے تھے۔ وہ گانے بھی اچھے گا لیتے تھے اور اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے انہوں نے اپنی فلم ’’سمندر‘‘ اور اشارا میں اپنی آواز میں گیت بھی گائے۔ ان دو فلموں کے علاوہ انہوں نے پرویز ملک کی فلم ’’جہاں تم وہاں ہم‘‘ میں شوق گائیکی پُورا کیا۔
دس مارچ 1968 کی عیدالاضحیٰ پر ریلیز فلم سمندر کراچی کے سابقہ مرکزی سنیما ناز کی زینت بنی۔ اس فلم میں موسیقار دیبو بھٹا چاریہ نے معروف شاعر صہبا اختر کے لکھے ہوئے نغمات کی لاجواب دھنیں مرتب کیں۔ کورس نغمے ساتھی تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر، سپر ہٹ ثابت ہوا، اسے احمد رشدی، مسعود رانا، سائیں اختر حسین اور ساتھیوں نے گایا تھا۔ اس شان دار کورس نغمے کے ایک انترے کو فلم کے ہیرو وحید مراد نے الگ سے ایک منظر میں اپنی آواز میں حزن و ملال کی کیفیت میں ڈوب کر انتہائی دھیمے پن اور بڑے ٹھہرائو کے ساتھ گایا۔ پس منظر میں پیانو اور بانسری کی آوازوں نے وحید مراد کی غمگین لب و لہجے والی صدا کو مزید نکھارا۔
لہر سے لہر ملے تو ساتھی لہراتا ہے پیار
ہاتھ میں ہاتھ رہے تو بن جاتی ہے وہ دیوار
جس کے آگے پانی ہے ٹکراتا سمندر۔
’’سمندر‘‘ مغربی پاکستان میں بننے والی ’’شبنم‘‘ کی پہلی فلم تھی، جسے وحید مراد نے پروڈیوس کیا تھا۔ سمندر نے مناسب بزنس کیا اور فلم بینوں نے بھی شبنم اور وحید کی جوڑی کو بے حد پسندیدہ قرار دیا،
فلم سمندر کے بعد وحید مراد نے اپنی آواز کا جادو فلم ’’جہاں تم وہاں ہم‘‘ میں جگایا۔ یکم نومبر 1968 کو یہ فلم کراچی کے ناز سنیما کے پردے کی زینت بنی۔ نغمہ نگار مسرور انور کے اس نغمے کی دُھن روبن گھوش نے بنائی اور نامور سریلے گائیک احمد رشدی نے اسے خوب صورت انداز میں گایا۔
’’اے میرے دیوانے دل دیکھ حسینوں کی محفل‘‘ فلم کے ہیرو وحید مراد پر فلمایا گیا یہ شوخ و چنچل نغمہ اسی فلم کے ایک منظر میں وحید مراد نے اپنے بیڈ روم میں بیٹھے بیٹھے اپنی آواز میؒں صرف اتنا سا گنگنایا۔
کس کس کی تعریف کروں ہر صورت متوالی ہے
حُسن کی محفل میں دل کی حالت دیکھنے والی ہے
شوخ رنگوں کی تتلیاں ہیں
آنکھوں میں جن کے بجلیاں ہیں
کسے پیش کروں نذرانہ دل
کس کس سے کہوں افسانہ دل
بتلائے کوئی میں جائوں کدھر
میری جاں میری جاں میری جاں آ آ۔
ان مذکورہ دو فلموں کے بعد وحید مراد نے اپنی گائیکی کا مظاہرہ فلم ’’اشارا‘‘ میں فلم کی ہیروئین دیبا کے ہمراہ اس دوگانے میں کیا، جس میں ان دونوں کی ہلکی پھلکی گفتگو بھی شامل تھی، جو وہ ٹیلی فون پر کرتے ہیں۔
جیسے تیسے بیت گیادن، رات بیتائوں کیسے
ہائے رات بیتائوں کیسے، رات بیتائوں کیسے
رات کی یہ تنہائی مجھ پر اور قیامت ڈھائے
اپنی بے چینی کا تم کو کیا میں حال سنائوں
جب بھی آئے یاد تمہاری، میں کھو کھو سی جائوں
جھوٹی سچی باتیں کر کے میں خود کو بہلائوں
اس دوری کو میں بھی بیتائوں کیسے کیسے کیسے۔
یہ دوگانا مسرور انور نے لکھا اور اسے سہیل رعنا نے کمپوز کیا تھا۔بہت کم فلم بینوں کو یہ معلوم تھا کہ چاکلیٹی ہیرو نے فلموں میں آواز کا جادو بھی جگایا تھا۔