27؍اپریل 1971ء کو پیدا ہونے والا ارمغان شاہد اُس فن کار گھرانے کا چشم و چراغ ہے کہ جس گھرانے نے پاکستانی سنیما کی تاریخ سازی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ عظیم رائٹر و ڈائریکٹر ریاض شاہد، جس کا والد، نامور فن کارہ نیلو جس کی والدہ اور فیاض شیخ جیسا مشاق فوٹو گرافر جس کا چچا۔ اُس ارمغان شاہد کو ہم اور آپ پاکستانی سنیما کے سپر اسٹار شان شاہد کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔
جاوید فاضل کی اردو فلم ’’بلندی‘‘ شان کا پہلا تعارف اور اولین فنی حوالہ بنی۔ شان کی پہلی ہی پرفارمنس دلوں میں گھر کر گئی۔ ناقدین فن نے جان لیا کہ فن کار فیملی کا یہ فرزند اپنے فن کی ضیاء سے فلم انڈسٹری کو تادیر منور کرنے کی صلاحیتوں سے پُوری طرح مالا مال ہے۔ ’’بلندی‘‘ جیسی کوالٹی مووی کرنے کے بعد ڈبل ورژن اور پنجابی فلموں کے کنٹریکٹ کا ایک سیلاب تھا، جس نے شان کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چند کامیابیوں اور بہت سی ناکامیوں کے ساتھ شان کچھ معیاری اور ڈھیروں غیر معیاری فلموں کے سیلابی ریلے میں سروائیو کرتے رہے۔
سید نور نے جب ’’گھونگھٹ‘‘ پلان کی تو شان ڈبل ورژن فلموں کی یکسانیت اور پے در پے ناکامیوں سے بیزار ہوکر بیرون ملک مقیم چلے گئے تھے۔ سید نور نے انہیں خاص طور پر ایک ہیرو شپ سے ہٹے ہوئے منفرد و مشکل کردار کی ادائیگی کے لیے پاکستان بلوایا۔ ’’گھونگھٹ بہترین کہانی، مضبوط ہدایتکارانہ ٹریٹمنٹ، اعلیٰ میوزک جیسی خصوصیات کے ساتھ ساتھ شعبہ اداکاری میں بھی ایک متاثر کن فلم تھی۔ اداکارہ عندلیب، صائمہ اور محسن حسن خان کی اعلیٰ کردار نگاری کا تذکرہ پھر کبھی کریں گے۔
تاہم شان نے اپنے کچھ مثبت اور کچھ منفی نوعیت کے رول کو جس کمال مہارت سے ادا کیا، اس نے شان کو ایک نیا حوالہ اور نئی شناخت عطا کی۔ ’’گھونگھٹ‘‘ 1996ء کی سپر ہٹ ریلیز ثابت ہوئی۔ اسی سال سنگیتا نے اپنی بہترین تخلیق فلم ’’کھلونا‘‘ میں شان کو ایک مکمل منفی رول میں پیش کیا۔ یہ ایک شکی مزاج نفسیاتی و تشدد پسند شوہر کا رول تھا، جس کی ادائیگی میں شان نے اعلیٰ کارکردگی دکھائی۔ ’’کھلونا‘‘ بھی باکس آفس پر نمایاں کام یابی سے ہم کنار ہوئی۔
1997ء میں سید نور نے ایک اچھوتی کہانی پر فلم ’’سنگم‘‘ بنائی۔ یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی تھی کہ جو ایک عجیب بیماری کا شکار ہے اور اس کی زندگی کی بقا اس میں تھی کہ اسے ایک شیشے کے کمرے میں محصور رہنا ناگزیر تھا۔ ڈاکٹرز کے مطابق کھلی فضا اور ماحول اس کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہوسکتا تھا۔ اس عجیب و غریب اور چیلنجنگ کردار کو شان نے جس خُوب صورتی، مہارت اور معصومیت کے رنگ میں نبھایا، وہ بے پناہ داد و تحسین کا مستحق ہے۔ ہدایت کارہ سنگیتا نے 1998ء میں ’’نکاح‘‘ کے عنوان سے ایک معیاری متاثر کن ڈراما مووی تخلیق کی، جس میں شان نے ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ایسے نوجوان کا کردار ادا کیا کہ جو ایک سرمایہ دار کی بیٹی سے محبت کی شادی رچالیتا ہے۔ لیکن اس کی مغرور، فتنہ پرور ساس کی پیدا کردہ غلط فیہمیاں اس کی خانگی زندگی کو زہرآلود کر دیتی ہیں۔
’’نکاح‘‘ ایوارڈز اور کام یابی کے تناظر میں 1998ء سرکردہ فلم ثابت ہوئی۔ 1999ء میں لیجنڈری فلم ڈائریکٹر حسن عسکری کی برصغیر کی تقسیم کے پس منظر میں بنائی گئی فلم ’’جنت کی تلاش‘‘ منظر عام پر آئی۔ جس میں شان ایک شاعر کے روپ میں نظر آئے اور اپنی خُوب صورت پرفارمنس کے انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ اسی سال سید نور کی شاہ کار تخلیق ’’ڈاکو رانی‘‘ میں وہ ایک ڈاکو کے روپ میں جلوہ گر تھے۔ گوکہ یہ مکمل طور پر صائمہ کی فلم تھی، لیکن شان نے اپنی جداگانہ اور اثر انگیز پرفارمنس سے خود کو بھرپور انداز میں منوایا۔ اس سال حسن عسکری کی ’’چوہدرانی‘‘ میں وہ ایک انصاف پسند چوہدرانی کے ضدی اور سرکش بھائی کے کردار میں فنی عروج پر نظر آئے۔
ہمارے بیش تر فلم میکرز نے اپنی پنجابی فلموں میں شان کو سلطان راہی بنانے کی کوشش کی، جس کےنتائج کبھی اچھے نہیں نکلے۔ تاہم حسن عسکری نے انہیں پنجابی فلموں میں بہت سلیقے اور صحیح ڈھب سے استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ شان نے ان کے ساتھ یادگار کارکردگی دکھائی۔ ’’چوہدرانی‘‘ میں بھی شان کی کردار نگاری نہایت اعلیٰ اور متاثر کن تھی۔ 2000ء کی ریلیز پاکستانی سنیما کی ایک مایہ ناز تخلیق ’’تیرے پیار میں‘‘ میں کے لیے شان نے ایک ایسے بہادر پاکستانی کا کردار ادا کیا کہ جو اپنی محبت کے حصول کے لیے بھارت جا پہنچتا ہے اور وہاں بھارتی آرمی کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد ان کے مظالم اور سختیوں کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرتا ہے۔ فلم کے ہر منظر میں شان کی کردار نگاری بے مثل تھی۔
آغا حسن عسکری نے اُن سے اس فلم میں جس معیار کا کام لیا ، اس کی دوسری کوئی تمثیل نہیں ملتی۔ ’’تیرے پیار میں‘‘ نے جہاں ایوارڈز اور معیار کے حوالے سے ایک مثال قائم کی، وہیں لاہور میں ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کرکے ان دو اردو فلموں میں سے ایک ہونے کا امتیاز حاصل کیا کہ جنہوں نے لاہور میں ڈائمنڈ جوبلی منائی۔ سید نور نے 2006ء میں جب کلاسیک شاہکار ’’مجاجن‘‘ بنائی تو شان کو اس کی فنی زندگی کا ہی نہیں بلکہ پنجابی سنیما کی پُوری تاریخ کا سب سے طاقت ور مشکل اور اچھوتا رول دیا اور شان نے کمال فن کے ساتھ ادائیگی سے اس کردار کو بے مثل، بے بدل اور لاجواب کردیا۔ ایک مراثن کے عشق میں گرفتار چوہدری زادے کے کردار کی تمثیل کو شان نے پنجابی سنیما کے تمام ہیروز کے امر کرداروں سے بڑھ کر ایک نقش ناتمام کی صورت پیش کیا۔ ’’مجاجن‘‘ نے کام یابی اور معیار کی نئی تاریخ رقم کی۔
جیو فلمز اورشعیب منصور نے 2007ء میں ریوائیول آف سنیما کی تحریک کا آغاز کرتے ہوئے جب انٹرنیشنل معیار کی حامل فلم ’’ خدا کے لیے‘‘ تخلیق کی، تو شان کو ایک سنگر کے منفرد رول میں پیش کیا۔ یہ محض ایک گائیک کا کردار ہی نہیں بلکہ ایک مُحب وطن امن پسند پاکستانی کا نمائندہ کردار تھا، جسے امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے تخریب کار سمجھتے ہوئے گرفتار کرکے دوران تفتیش تھرڈ ڈگری ٹارچر کا نشانہ بناتے ہیں اور یہاں تک کہ وہ اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ بلاشبہ شان نے اس انتہائی مشکل اور چیلجنگ رول کو اپنی تمام تر فنی توانائیوں کے ساتھ نبھایا اور اپنے شان دار اور امر کرداروں میں ایک قابل فخر کردار کا اضافہ کیا۔
2013ء میں بلال لاشاری کی شان دار فلم ’’وار‘‘ منظر عام پر آئی تو ’’شان‘‘ نے پاکستانی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے سولجر کے روپ میں چونکا دینے والی کارکردگی دکھائی۔ اگر ان کے ادا کردہ اس کردار کی نوعیت اور نفسیات کا موازنہ ہم ہالی وڈ کی بانڈ 007فلموں کے شین کونری اور راجر مور سے کریں تو غلط نہ ہوگا اور پرفارمنس کے زمرے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شان نے ان دو فن کاروں کے معیار سے ’’وار‘‘ میں کسی طور پر بھی کم تر کام نہیں کیا۔
ہم پورے فخر اور اعتماد سے اس فلم کو اس کے معیار کے تناظر میں پلس شان کی قابل فخر پرفارمنس کے حوالے سے دنیا بھر میں پیش کرسکتے ہیں۔ ’’وار‘‘ کی تاریخی کام یابی نے ریوائیول آف پاکستانی سنیما کی تحریک کو تیز تر کیا، لیکن حالیہ کورونا کی کاری ضرب نے پاکستانی سنیما کو ایک بار پھر زوال اور جمود کی اتھارہ گہرائیوں میں پہنچا دیا۔ شان کی دو تین فلمیں شوٹ پر ہیں، جب کہ ان کی پروڈیوس کی ہوئی فلم’’ ضرار‘‘ جلد ہی سنیما گھروں کی زینت بنے گی۔ شان کے بعد ایسا منجھا ہوا باکمال فلموں کا سپر اسٹار ابھی تک سامنے نہیں آیا۔