• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
الفاظ میں طاقت پنہاں ہوتی ہے، دانشمندانہ الفاظ وقت کے ساتھ ساتھ محاورے کے طور پر استعمال ہوتے رہتے ہیں، یہ خداداد صلاحیت نہیں بلکہ الفاظ کا ذخیرہ اور ان کا برمحل استعمال ہے جس سے بعض بچے اپنی طبعی عمر سے زیادہ کمال اعتماد سے بحث مباحثوں میں طاقتور دکھائی دیں گے، ایسے بہت سے بچے یونیورسٹیوں کے انٹرویوز یا لاء چیمبرز، بورڈ رومز اور شاید پارلیمنٹ میں بھی اسی اعتماد سے گفتگو کے فن میں مہارت ظاہر کرتے ہیں ، ایک پُراعتماد مقرر ہی ہمیشہ ایک اہل مقرر سمجھا جاتا ہے، مقررین کے پاس الفاظ کے وسیع اور گہرے ذخائر جو گویا گفتگو کی عمارت میں اینٹوں اور گارے کا کام دیتے ہیں جن سے مقررین اپنی گفتگو کو مزین کرتے ہیں اور اپنے آرگومنٹس اور نقطہ نظر کو طاقتور بناتے ہیں، اس امر کے ثبوت اور دلائل موجود ہیں کہ اکیڈمک کامیابی اور بچے کے الفاظ کی گہرائی اور وسعت کے درمیان تعلق ہے اور دونوں کا ان کے گھر کے پوسٹ کوڈ سے لنک ہے، تنخواہوں کی سطح اور ان کے والدین کی تعلیمی قابلیت اور استعداد کے ساتھ بھی، یہ ثبوت شواہد ایک تاریک منظر پیش کرتے ہیں یعنی جو بچے ایسے گھرانوں میں رہتے ہیں جہاں پسماندگی اور افلاس ہے وسائل اور درکار ماحول کی کمی کی وجہ سے ان کی تعلیمی استعداد بہت متاثر ہوتی ہے ایسے بچوں کو خصوصی طور پر الفاظ کے وسیع ذخائر کے ایکسپوژرز کی اشد ضرورت ہے، ایجوکیشن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے لئے کی گئی تازہ ریسرچ کا اندازہ ہے کہ الفاظ کے موجودہ تفاوت کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے اندازاً 50 سال کی مدت درکار ہے _ Closing the vocabulary میں الیکس کوئگلی Alex Quigley یہ ایکسپلور کرتا ہے کہ کیسے الفاظ کے مجموعے کی استعداد کا تفاوت کم کرکے پس ماندہ بچوں کے تعلیمی نتائج کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ طلباء کا الفاظ کے اعتبار سے غریب یا امیر ہونا ہی یہ کسی اسکول کی ناکامی یا کامیابی کا معیار بنتا ہے ، مصنف بحث کرتا ہے اور ترغیب دیتا ہے کہ (لغت یا مجموعہ الفاظ بڑھانے) بحثیت استاد آپ سماجی عدم مساوات یا میٹریل غربت تو ختم نہیں کر سکتے لیکن کلاس روم میں تو فرق لاسکتے ہیں، ایک استاد کسی بچے کو الفاظ کے اعتبار سے تو امیر بنا سکتا ہے یعنی الفاظ کا ذخیرہ بڑھانے میں کردار ادا کر سکتا ہے، واضح رہے کہ کم عمری میں الفاظ کے حوالے مفلس ہونے کے نتائج آگے عملی زندگی میں جیسا کہ ملازمت، تنخواہ اور حتی کہ ایک بالغ شخص کی صحت اور تندرستی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ، اگر ایک سال میں تین سے چار ہزار الفاظ کی گراوتھ ہو تو ریسیپشن کلاس سے اسکول سے فارغ ہونے تک ہم بچوں کو لگ بھگ 50 ہزار الفاظ کا ذخیرہ منتقل کر چکے ہوتے ہیں، تاہم الفاظ کی وسعت سے بھی زیادہ شاید الفاظ کی گہرائی زیادہ اہمیت رکھتی ہے، الفاظ کے ماخذ سے واقفیت حاصل کرنا اور اکیڈمک الفاظ کی کیٹیگری کو جاننا ہی اصل فن ہے، الفاظ کو زندگی کے معانی کیسے پہنائے جائیں محقق آئزابیل بیک اور اس کی کولیگز نے ایک تحقیق میں الفاظ کی سہ درجہ ایک نہایت کارآمد درجہ بندی کی ہے_ تین ٹیرز ہیں ، ٹیئر 1 ایسے الفاظ ہیں جو بنیادی الفاظ ہیں اور جو روزمرہ گفتگو میں مستعمل ہیں، ٹیئر2، دوسری جانب کارآمد الفاظ ہیں جو اسکول نصاب میں تو شامل ہوتے ہیں لیکن وہ روزمرہ بات چیت میں اس طرح استعمال نہیں کیے جاتے اور یہ لغت اور الفاظ کے مجموعے کی دوسری کیٹیگری اکیڈمک سٹڈی کے لیے لازم ہے تیسری قسم ان الفاظ کی ہے جو کسی مخصوص مضمون میں استعمال ہوتے ہیں ہر مضمون کی اپنی زبان ہوتی ہے مخصوص اصطلاحات ہوتی ہیں اور اگر بچوں کو کسی مخصوص مضمون میں اعلیٰ تعلیم دلانی ہے یا کسی مخصوص پیشے میں مہارت حاصل کرانی ہے تو پھر ایسے بچوں کو اس مخصوص مضمون کی اصطلاحات اور لغت کو سمجھنا ہوگا، الیکس کوئگلی، ہم سب جب پڑھتے ہیں تو مینٹل ماڈلز ڈویلپ کرتے ہیں اس لئے جب ایک کہانی پڑھی جاتی ہے بچے الفاظ کے چوائسیز کی وجہ سے کہانی کے ڈھانچے اور طرز انداز کے پچھلے مطالعہ کے باعث کرداروں اور ماحول کی ایک تصویر اپنے ذہن رسا میں تشکیل دے دیتے ہیں ،کیٹ نیشن ریڈ آکسفورڈ ڈائریکٹر اور پروفیسر آکسفورڈ یونیورسٹی برائے تجرباتی نفسیات نے محولہ بالا کتاب کے بلرب، بیک پیج پر تبصرہ کیا ہے کہ الیکسکوئگلی نے اکیڈمک ریسرچ کا جال بنتے ہوئے اور کلاس روم مشاہدات کا نچوڑ نکال کر مہارت سے بتایا ہے کہ الفاظ کی غربت کیوں توجہ چاہتی ہے اور کیا اقدامات اٹھائے جائیں ان کی وضاحت کی ہے ، ڈیوڈ کرسٹل ہولی ہیڈ، نارتھ ویلز میں اپنے گھر سے ایک مصنف، ایڈیٹر، لیکچرر اور براڈکاسٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں لیکن ان کی شاید زیادہ شہرت کیمبرج یونیورسٹی پریس ، کیمبرج انسائیکلوپیڈیا آف لینگوج اور دی کیمبرج انسائیکلوپیڈیا آف دی انگلش لینگویشن (تیسرا ادارہ 2018) کے لئے اپنے دو انسائیکلوپیڈیا کے باعث ہے، ڈیوڈ کرسٹل لکھتے ہیں کہ تعلیم ایک بڑی دنیا کے لیے تیار ہونے کا پراسیس ہے اور بڑی دنیا میں بڑے الفاظ ہیں، جتنے زیادہ بڑے الفاظ میں جانتا ہوں گا، اتنا ہی زیادہ میں اس بڑی دنیا میں زندہ رہنے کے قابل بن سکوں گا، اگرچہ انگریزی کے سیکڑوں ہزاروں بڑے الفاظ ہیں الفاظ سے زیادہ اہم کوئی شے بچوں یا کسی بھی شخص کی استعداد بڑھانے میں ممد و معاون ثابت نہیں ہوسکتی اپنی تصنیف Words, words, words (الفاظ، الفاظ، الفاظ) میں، کرسٹل قارئین کو ایک دلچسپ لسانی مہم جوئی پر اپنے ساتھ لیے جاتے ہیں اور انگریزی زبان کو اس کی تمام تر عجیب و غریب، پیچیدگیوں اور ہر لمحہ بدلتی ہوئی خوبصورتی میں تلاش کرتے ہیں۔ لفظ کی ابتداء اور ارتقاء اور ماخذ سے سفر کرتے ہوئے، ورڈ پلے، ورڈ گیمز، ورڈ رسکس اورورڈ گینگز اس سے بھی بہت آگے کرسٹل زبان کے بارے میں اپنے بے تحاشا علم سے قارئین کو متاثر کرتے ہیں، وہ نئے الفاظ، پرانے الفاظ، خوبصورت الفاظ، ممنوعہ الفاظ ، سادہ انگریزی الفاظ، مخطوطات اور مترادفات اور دیگر تحریری الفاظ کو سیلبریٹ کرتے ہیں لفظوں کا کھیل کوئی ان سے سیکھے، وہ مختلف حالتوں میں الفاظ، الفاظ، الفاظ اس طرح کے مضامین پر انمول بصیرت پیش کرتے ہیں جیسے کہ لغت، آپ زبان کے حجم کا اندازہ کیسے لگائیں یا اپنے بچے کے الفاظ کا ریکارڈ کیسے رکھیں! اور بھی بہت کچھ! اخبار سے وابستہ صحافیوں، کالم نگاروں، ادیبوں یا مصنفین ان سب کا گہرا تعلق الفاظ کے ساتھ ہے الفاظ کے استعمال کا فن ہی انہیں اپنے اپنے شعبے میں نمایاں بناتا ہے لیکن پہلے الفاظ کا ذخیرہ ہونا چاہیے جو ظاہر ہے کہ کتاب اخبارات جرائد کے مطالع سے ممکن ہے، دنیا کی چند اہم ترین شخصیات کی ضرب الامثال، کہاوتوں اور اقوال زریں کا خلاصہ یہ ہے کہ الفاظ ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ لوگوں کو استوار کرسکیں یا ان کو توڑ پھوڑ دیں۔ اپنے الفاظ دوسروں پر بیان کرنے سے پہلے احتیاط سے ان کا انتخاب کریں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ جو الفاظ بولیں یا لکھیں انہیں مثبت ہونا چاہئے۔ الفاظ کے ذریعے لوگوں کے اندر یقین اور امید پیدا کریں۔ آپ کے الفاظ دوسرے افراد کو بہتر انسان بننے کی ترغیب دیں اور آپ کے الفاظ سے لوگ اپنے خوابوں کی تکمیل کی راہ پا سکیں۔ کسی نے کہا ہے کہ الفاظ متاثر کر سکتے ہیں اور الفاظ تباہ بھی کر سکتے ہیں، اس لیے اچھی طرح سے ان کا چناو کریں کسی اور نے کہا کہ اپنے الفاظ کو اپنے مزاج کے ساتھ مت ملائیں آپ اپنا موڈ تبدیل کرسکتے ہیں لیکن آپ اپنے الفاظ واپس نہیں لے سکتے ہیں۔ ایک نے کہا کہ الفاظ طاقت کا منبع ہوتے ہیں آپ یہ منتخب کرتے ہیں کہ وہ کس طرح کی طاقت رکھتے ہیں۔ آپ اپنی باتوں سے اپنی زندگی کا رخ تبدیل کرسکتے ہیں۔ مولانا جلال الدین رومی، اپنی بات بلند کرو اپنی آواز نہیں۔ کسی اور نے کہا کہ انہیں احتیاط سے سنبھالیں کیونکہ الفاظ ایٹم بموں سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں، ایک اور تبصرہ ہے کہ مجھے دنیا میں ایسی کوئی چیز نہیں معلوم جس میں ایک لفظ جتنی طاقت ہو، ایک اور کہ پوری انسانی تاریخ میں ہمارے سب سے بڑے رہنماؤں اور مفکرین نے الفاظ کی طاقت کو ہمارے جذبات کو بدلنے ان کے اسباب میں شامل کرنے اور تقدیر کی منزل کو تشکیل دینے کے لئے استعمال کیا ہے۔ الفاظ صرف جذبات ہی پیدا نہیں کرسکتے وہ عمل پیدا کرتے ہیں اور ہمارے اقدامات سے ہماری زندگی کے نتائج نکلتے ہیں۔ تھامس بیرٹ جنہیں ماڈرن ایڈورٹائزنگ کا بانی کہا جاتا ہے کی کہاوت مشہور ہے کہ کوئی بے وقوف بھی صابن بنا سکتا ہے لیکن صابن فروخت کرنا ایک چالاک شخص کے بغیر ممکن نہیں، با الفاظ دیگرکوئی بھی پراڈکٹ فروخت کرنے کے لیے اشتہاری مہم ناگزیر ہے اور ایڈورٹایزنگ اور مارکیٹنگ الفاظ کا ہی کھیل ہے۔ نئی مصنوعات، نئی تکنیکوں، کبھی سوچا ہے کہ ہم کیسے کوئی آئٹم یا پراڈکٹ خریدنے یا اسے استعمال کرنے کے قائل ہوتے ہیں، سینما کا ٹکٹ، مشروبات، میگزین، ایک کتاب میں ایڈورٹایزنگ ایکسپرٹ تجویز کرتا ہے کہ ہم کو یہ قائل کیا گیا ہوتا ہے کہ فلم دیکھنا اہم ہے یا ایک سافٹ ڈرنک کا برانڈ ذائقہ اور لذت میں دوسرے مشروبات سے بہتر ہے یا فلاں میگزین شیلف میں رکھے دوسرے رسالوں سے زیادہ دلچسپ ہے، صارفین کی قوت خرید اور زہنی ترغیب پر ایک پراڈکٹ فروخت کرنے سے متعلق الفاظ کا بہترین چناو ہی اثر انداز ہوتا ہے، کاپی رائٹرز کو لازمی طور پر الفاظ کو مہارت سے چننا ہوتا ہے ۔ آخر میں But words are things, and a small drop of ink, Falling like dew, upon a thought, produces That which make thousands, perhaps millions, think. Lord Byron, Don Juan, 1819 — 1824۔
تازہ ترین