• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’خُلع‘‘ کا موجودہ قانون ایک معاشرتی المیہ..!

مولانا قاری محمد حنیف جالندھری

(ناظمِ اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ، پاکستان)

انسانی رشتوں میں خاوند و بیوی کا رشتہ ایک ایسا تعلق ہے جو بیک وقت انتہائی مضبوط بھی ہے اور حد درجہ نازک بھی، یہ رشتہ جہاں ’’قبول ہے‘‘ کے اقرار کے ساتھ دو اجنبی مرد و عورت کو تمام عمر کے لیے ایک دوسرے کے حقوق و فرائض ادا کرنے کے مقدس رشتے میں باندھ دیتا ہے، وہیں ’’طلاق‘‘ کے لفظ کا تکرار زوجین کے مابین نہ ختم ہونے والی حدّ فاصل بھی قائم کر دیتا ہے۔

شریعتِ اسلامیہ میں اس مقدس مگر نازک رشتے کو برقرار رکھنے کے بڑے واضح اور تاکیدی احکام دیے گئے ہیں اور میاں بیوی کی علیحدگی کو نہایت سنگین قرار دیا گیا ہے ،اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مباح چیزوں میں طلاق سب سے زیادہ مبغوض اور ناپسندیدہ ہے جیسا کہ حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے، ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ مبغوض چیز طلاق ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۲۸۳ بروایت ابوداؤد)یہی وجہ ہے کہ بغیر کسی شدید ضرورت کے عورت کے مطالبۂ طلاق کو لائق نفرت قرار دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد نبویؐ ہے ،’’جس عورت نے اپنے شوہر سے شدید ضرورت کے بغیر طلاق کا مطالبہ کیا ،اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے ۔(مشکوٰۃ شریف ص۲۸۳۔بروایت مسند احمد، ترمذی، ابوداؤد، دارمی، ابن ماجہ)

ایک اور حدیث شریف میں ارشاد ہے:(بلاضرورت) خود کو قید نکاح سے نکالنے والی اور خلع لینے والی عورتیں منافق ہیں۔( مشکوٰۃ ص ۲۸۴ بروایت نسائی)

ایک حدیث پاک کے مطابق شیطان کو جتنی خوشی میاں بیوی کی علیحدگی سے ہوتی ہے، اتنی خوشی لوگوں کو چوری اور شراب نوشی جیسے بدترین گناہوں میں ملوث کرنے سے بھی نہیں ہوتی۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۱۸ بروایت صحیح مسلم) شیطان کی اس خوشی کا سبب یہ ہے کہ میاں بیوی کی علیحدگی سے بے شمار مفاسد جنم لیتے ہیں ،پہلے ایک ہنستا بستا گھر اجڑتا ہے، پھر بچوں کا مستقبل تباہ ہوتا ہے، اس کے بعد دونوں خاندانوں کے درمیان بغض و عداوت اور نفرت و حقارت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جنم لیتا ہے، جس کے ضمن میں ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے الزامات ،طعن و تشنیع ،غیبت و چغل خوری سے بڑھ کر قتل و قتال تک نوبت جا پہنچتی ہے ،اس لیے اسلامی تعلیمات میں حتی ٰالامکان اس کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ میاں بیوی کی علیحدگی کا راستہ روکنے کی کوشش کی جائے ،تاکہ دیگر مفاسد اور منکرات کا دروازہ نہ کھلے۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ شرعاً ’’طلاق‘‘ کے ناپسندیدہ ہونے کے باوجود اسے ناگزیر ضرورت کے طور پر قبول کیا گیا ہے، کیونکہ بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ طلاق دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ طلاق کی نوبت آنے میں عورت اور مرد دونوں کا انفرادی اور اجتماعی کردار اہمیت رکھتا ہے، طلاق کی عمومی وجہ مرد اور عورت کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث پیدا ہونے والی طبعی یا عارضی نفرت ہوتی ہے ،جس کے بعد مرد اور عورت کے درمیان اکٹھے زندگی گزارنا اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات زوجین کے درمیان جنسی اور اخلاقی کمزوریوں کا حائل ہونا بھی طلاق یا علیحدگی کا سبب بن جاتا ہے ،اس طرح کے حالات میں میاں بیوی کو ساتھ رہنے پر مجبور کرنا شریعت اور عقل کے تقاضوں کے خلاف ہے اور فریقین کے درمیان اس مسلسل کشاکش اور ناچاقی کے منفی اثرات اولاد پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ان حالات میں مرد کا طلاق دے دینا یا عورت کا خلع لے لینا ہی مسئلے کا قابلِ عمل حل ہے۔

اسلامی شریعت میں جہاں شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر رشتۂ ازدواج سے آزاد کر سکتا ہے ،وہیں بیوی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اگر اس کے لیے حدود اللہ کے اندر رہتے ہوئے ازدواجی تعلق کو قائم رکھنا ممکن نہ رہے تو وہ اپنے آپ کو اس بندھن سے آزاد کرا سکے، قانونی اصطلاح میں یہ حق ’’خلع‘‘ کہلاتا ہے، ’’خلع‘‘کے لیے لازمی ہے کہ بیوی اپنے شوہر کو معاوضے کی یا حق مہر سے دستبردار ہونے کی پیشکش کرے اور شوہر اسے قبول کر لے، بہ الفاظِ دیگر خلع کے لیے زوجین کی باہمی رضامندی ضروری ہے اور خلع کے کیس میں شوہر کی غیرحاضری یا عدم رضا کی صورت میں یک طرفہ ڈگری کی شرعی طور پر کوئی حیثیت نہیں۔ علامہ علائو الدین حصکفیؒ فرماتے ہیں کہ ’’خلع‘‘ یا اس طرح کے کسی لفظ سے نکاح کو ختم کر دینا جو فریقین کے قبول کرنے پر موقوف ہو خلع کہلاتا ہے ۔(الدرالمختار) خلع کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے چنانچہ ارشاد ہے ’’اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ وہ میاں بیوی (اب) حدود اللہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ عورت مالی معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے۔(سورۃ البقرہ ۲۲۹) خلع مرد کے مال لیے بغیر بھی جائز ہے اور خلع کے بعد عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں ’’ خلع کا حکم یہ ہے کہ اس کے ذریعے طلاق بائن واقع ہو گی خواہ وہ مالی عوض کے ساتھ ہو یا مالی عوض کے بغیر ہو۔ (الدرالمختار باب الخلع ص۴۴۴ج۳) آج ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ عورتیں معمولی ازدواجی اختلاف کی بنیاد پر عدالتوں کے ذریعے خلع کے مقدمات دائر کرا رہی ہیں،اور ملک بھر کی عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے مقدمات زیر سماعت ہیں، جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ خلع میں عقد نکاح کو ختم کرنے کا مطالبہ عورت کی جانب سے ہوتا ہے اور مرد اس کے مطالبے پر کچھ لے کر اسے عقدِ نکاح سے آزاد کرتا ہے اور خلع بھی دیگر عقود کی طرح ایک عقد ہے ،اس لیے کہ اس میں فریقین میں سے ہر ایک کا راضی ہونا ضروری ہے اور یہ یک طرفہ نہیں ہو سکتا، چنانچہ اگر عدالت شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع کا فیصلہ دے تو شرعاً یہ خلع معتبر نہیں ہو گا۔ (بہ حوالہ فتاویٰ شامیہ ۔ کتاب الطلاق باب الخلع ص۴۴۱ج۳)

لیکن ہمارے ہاں عائلی قوانین میں کچھ ایسی خامیاں موجود ہیں جو شرعی اعتبار سے درست نہیں اور جن پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے، ان میں سے ایک یک طرفہ خلع بھی ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں بعض مغربی این جی اوز اور آزاد خیال عورتوں کے مطالبے کی بناء پر خلع کے قوانین میں ایسی ترامیم کی گئیں، جن سے ناجائز فائدہ اٹھانا بہت ہی آسان ہو گیا ہے چنانچہ عورت کی طرف سے خلع کا مقدمہ دائر کرنے کے بعد عدالت اس کے شوہر کو دو یا تین مرتبہ سمن جاری کرتی ہے اور شوہر کی طرف سے جواب نہ آنے پر یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کر دیتی ہے، جو قرآن مجید کے حکم ’’نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں ہے‘‘کے سراسر خلاف ہے۔

2015ء میں فیملی کورٹ ایکٹ میں جو ترمیم کی گئی وہ قرآن و سنت اور تمام فقہائے امت کے مؤقف کے برعکس ہے، اس ترمیم کے مطابق خلع کے کیس میں عورت کا صرف یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ’’میں اب اس خاوند کے ساتھ نہیں رہ سکتی‘‘ اس کے بعد عدالت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ خلع کا کیس عورت کے حق میں کر دے۔

اس ترمیم کی عبارت یہ ہے ’’اگر شوہر یا خاتون دونوں میں سے کوئی ایک کہتا ہے کہ میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا/چاہتی یہ میرا پکا فیصلہ ہے ، مجھے اس سے علیحدہ ہی ہونا ہے تو اب قانون کے لیے لازم ہے کہ اسی وقت خلع کا کیس عورت کے حق میں کر دے‘‘۔

’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ جو ایک آئینی ادارہ ہے اور جس کا ہدف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظریے کے مطابق اس ملک کے نظام کو اسلامی نظام میں ڈھالنے کی تدبیر و سعی کرنا ہے، نے بھی اس مسئلے میں شرعی حکم کو واضح کیا ہے چنانچہ کونسل نے اپنے اجلاس نمبر 199 منعقدہ 26-27مئی 2015ء میں بعض سفارشات پیش کیں۔ عدالت کے ذریعے خلع کا حصول… موجودہ قانونی صورت حال اور درپیش مسائل اور شرعی نقطہ نظر کے زیر عنوان کونسل نے دو فیصلے منظور کیے ، فیصلہ نمبر1 مروجہ عدالتی خلع میں شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالت یک طرفہ ڈگری جاری کرتی ہے، درست نہیں، عدالتوں کو چاہیے کہ وہ خلع اور فسخ نکاح میں فرق کریں۔

فیصلہ نمبر 2 شعبہ ریسرچ خلع، فسخ، ایلاء، لعان اور ظہار کی تعریفات پر مشتمل ایک دفعہ کا متن تیار کرے جو بعد ازاں قانون انفساخِ نکاح مسلمانان 1939ء میں شامل کیا جائے گا‘‘۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے اس وقت کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کونسل کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’عدالتیں خلع کے نام پر تنسیخ نکاح کے فیصلے دے رہی ہیں جو جائز نہیں، خلع کا حق صرف خاوند کے پاس ہے ،عدالتوں کو چاہیے کہ وہ خلع اور تنسیخ نکاح میں فرق کریں‘‘۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی اس واضح راہنمائی کے باوجود خلع کا قانون جوں کا توں ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سفارشات گزارش و تلقین سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں،حتیٰ کہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق صدر ضیاء الحق مرحوم کے دور کے بعد 30 سالہ عرصہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کی کسی سفارش کو پارلیمنٹ میں سرے سے زیر بحث ہی نہیں لایا گیا۔ مروجہ قانونِ خلع کے حامیوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ خلع کے لیے میاں بیوی کی باہمی رضامندی کی شرط ایک فقہی رائے ہے حالات کے تناظر میں اس میں کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔ ان حضرات کی خدمت میں گزارش ہے کہ خلع کے لیے میاں بیوی کی باہمی رضامندی صرف ’’فقہی رائے‘‘ نہیں ،بلکہ فقہائے امت کا اجماعی فیصلہ ہے حنفی، مالکی، شافعی ، حنبلی تمام مذاہب کے فقہاء متفق ہیں کہ خلع کے لیے زوجین کی رضامندی ضروری ہے۔اختصار کے ساتھ اس مسئلے میں چاروں مذاہب کی تصریحات درج کی جاتی ہیں:

حنفی مسلک:شمس الائمہ امام سرخسی رحمہ اللہ المبسوط ص ۱۷۳ج۶ پر تحریر فرماتے ہیں:یعنی خلع حاکم و غیر حاکم دونوں کے پاس جائز ہے ،اس لیے کہ یہ ایک ایسا عقد ہے جس کی ساری بنیاد باہمی رضامندی پر ہے۔

شافعی مسلک: امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ یعنی خلع طلاق کے حکم میں ہے، لہٰذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے کی طرف سے طلاق دے نہ باپ کو یہ حق ہے، نہ آقا کو، نہ سرپرست کو، نہ حاکم کو۔ (کتاب الام ص ۲۰۰ج۵)

مالکی مسلک:علامہ ابوالولید باجی مالکی رحمہ اللہ موطا امام مالکؒ کی شرح میں لکھتے ہیں :یعنی عورت کو شوہر کے پاس جانے پر مجبور کیا جائے گا، اگر شوہر خلع وغیرہ کے ذریعے علیحدگی نہ چاہتا ہو۔ (المہذب ص ۷۱ج۲)

حنبلی مسلک:فقہ حنبلی کے مستند ترین شارح علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ یعنی اس لیے کہ خلع عقد معاوضہ ہے، اس کے لیے حاکم کی ضرورت نہیں، جیسا کہ بیع اور نکاح میں حاکم کی ضرورت نہیں، نیز اس لیے کہ خلع باہمی رضامندی سے عقد کو ختم کرنے کا نام ہے، لہٰذا یہ اقالہ (فسخ بیع) کے مشابہ ہے۔ ( مغنی ابن قدامہ ص ۵۲ج۷)

دورِ جدید کا مغربی تصور یہ ہے کہ جس طرح مرد، عورت کو اس کی مرضی کے بغیر طلاق دے سکتا ہے اسی طرح عورت، مرد کی رضامندی کے بغیر خلع لے سکتی ہے۔ پاکستان میں موجودہ خلع کے قانون کی عمارت اسی بنیاد پر استوار کی گئی ہے، لیکن یہ وہ فکر یا عمل ہے جس سے شریعت کا پورا عائلی نظام تلپٹ ہو جاتا ہے اور جس سے اللہ تعالیٰ کی وہ حکمتِ بالغہ باطل ہو جاتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں رکھی ہے عورت کے ہاتھ میں نہیں۔

بلاشبہ، اللہ تعالیٰ نے عورت کو ہر حق دیا ہے کہ وہ ضرورت محسوس کرے تو شوہر سے خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے اور ’’بدل خلع‘‘ کے طور پر مالی معاوضے کی پیشکش بھی کر سکتی ہے، مگر ’’خلع کا حق‘‘ اور ’’خلع کے مطالبے کا حق‘‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ شوہر سے خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے، یہ حق نہیں دیا کہ وہ از خود مرد کو خلع دے کر چلتا کر سکتی ہے ، اس کی مثال ایسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو حق دیا ہے کہ وہ حدود شرعیہ کی رعایت رکھتے ہوئے جہاں چاہے نکاح کر سکتا ہے، یہ حق مرد کو بھی ہے اور عورت کو بھی، لیکن نکاح کا یہ حق یک طرفہ نہیں ،کیونکہ نکاح ایک ایسا عقد ہے جو دونوں فریقوں کی رضامندی پر موقوف ہے، اسی طرح خلع بھی ایک ایسا عقد ہے جس کے ذریعے دونوں فریق ’’ازالۂ نکاح بالعوض‘‘ کا معاملہ طے کرتے ہیں۔ جس طرح نکاح کا پیغام بھیجنے کا حق ہر شخص کو حاصل ہے ،لیکن عملاً نکاح اس وقت ہو گا جب دونوں فریق نکاح کا ایجاب و قبول کریں گے۔

(… جاری ہے…)

تازہ ترین