• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قاضی جاوید سے میری واقفیت اس وقت ہوئی جب میں سندھ یونیورسٹی میں پڑھا رہا تھا۔ میں نے ان کی تین کتابیں پڑھیں۔ ’برصغیر میں مسلم فکر کا ارتقاء‘، ’افکار شاہ ولی اللہؒ‘ اور ’سرسید سے اقبال تک‘۔ ان تینوں کتابوں میں ایک نئی فکر تھی۔ اس کے بعد ان کی کتاب ’وجودیت‘ پڑھی۔ ان سے میری ذاتی ملاقات 1985ء میں ہوئی جب میں لاہور ایک لیکچر کے سلسلے میں آیا۔ ملاقاتوں کا سلسلہ اس وقت بڑھا جب میں حیدر آیاد سے مستقل لاہور منتقل ہو گیا اور ہمارے درمیان علمی و ادبی بحث و مباحث کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہم دونوں نے مل کر کئی مقامات پر سفر بھی کئے۔ ایک مرتبہ اسلام آباد گئے جہاں ہماری ملاقات ڈاکٹر افضل سے ہوئی جو قاضی صاحب کے بڑے مداح تھے مگر انہوں نے قاضی صاحب کو کسی قسم کی ملازمت دلانے میں کوئی مدد نہیں کی۔ ایک اور مرتبہ ہم علی عباس جلالپوری سے ملنے جہلم گئے ۔ ان سے ہماری یہ ملاقات ایک لحاظ سے بڑی اہم تھی کیونکہ ہم سب ہی ان کی کتابیں پڑھ کر ان سے روشناس ہو چکے تھے۔ جب ہم نے پہلی تاریخ کانفرنس کی تو اس میں قاضی صاحب نے پنجاب کے صوفیاء پر اپنا مضمون پڑھا تھا۔ سندھ میں ہونے والی تاریخ کانفرنس میں وہ ہمارے ساتھ لاہور سے گئے تھے اور وہاں شاہ لطیفؒ پر اپنا مقالہ پیش کیا تھا۔

ایک زمانے تک وہ لکھنے لکھانے میں مصروف رہے تھے، اپنے اس دور میں انہوں نے کئی کتابوں کے تراجم بھی کئے۔ خاص طور سے ’’رسل کی آپ بیتی‘‘ اور’’ رسل کے افکار‘‘ پر۔ وہ بہت خوبصورت اور سادہ ترجمہ کرتے تھے، اس لئے ان کی اپنی تصانیف اور ترجمہ شدہ کتابوں کی تعداد تقریباً 18سے 20تک ہو گی لیکن اپنی عمر کے آخری حصے میں وہ حالات سے مایوس ہو گئے تھے اور لکھنے کا سلسلہ تقریباً بندکر دیا تھا۔ ایسا انہی کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ہمارے بہت سے دانشور اس کا شکار ہوئے کیونکہ جب سوسائٹی کی جانب سے کوئی ردعمل نہ ہواور تحریر کی وقعت نہ ہو تو مایوسی آ ہی جاتی ہے، اس لئے انہوں نے اپنا وقت سکون سے گزارنا چاہا تاکہ وہ ماحول کی تلخیوں سے دور رہے۔ ان کی پناہ گاہ ماڈل ٹائون پارک تھا جہاں وہ صبح شام سیر بھی کرتے تھے اور وہاں آنے والے دوستوں سے گپ شپ بھی۔ وہ اتوار کو صبح سات بجے پارک میں ایک لیکچر کا انتظام کرتے تھے تاکہ جو تفریح کرنے والے ہیں ان کو کچھ علم سے بھی روشناس کروایا جائے۔ اس روایت کو انہوں نے آخری دم تک جاری رکھا۔

میرے اور قاضی صاحب کے درمیان ہمیشہ اس بات پر اختلاف رہا کہ انگریزی دور اچھا تھا یا اس کے سارے معاشرے پر منفی اثرات پڑے۔ قاضی صاحب انگریز دور کے بڑے حامی تھے ان کی دلیل تھی کہ ہم ہندوستانی غیر مہذب اور جاہل تھے جبکہ انگریزوں نے ہمیں مہذب بنایا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عام لوگوں کو وہ بھی اسی جہالت اور پسماندگی میں چھوڑ کر چلے گئے اور ان کے بعد آنے والی ہماری حکومتوں نے بھی عوام کو نظر انداز کر کے انہیں صرف اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ میں نے کئی بار غصےکا اظہار کیا اور ان سے بار بار کہا کہ زندگی کے کچھ مقاصد ہونے چاہئیں، اس لئے انہیں لکھتے رہنا چاہئے۔ وہ ہر بار میری بات خاموشی سے سنتے تھے اور اپنے موقف پر قائم تھے یہاں تک کہ انہوں نے اخباروں میں کالم لکھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ وہ چونکہفلسفی تھے، اِس لئے شاید انہوںنے ایپکورس کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے سادگی اختیار کی کیونکہ اس کے نزدیک اصل خوشی اور مسرت اسی میں ہے کہ انسان اپنی زندگی کو سادہ سے سادہ رکھے۔ چونکہ خواہشات لامتناہی ہوتی ہیں اور کوئی بھی اپنی ایک زندگی میں ان کو پورا نہیں کر پاتا ۔ان کی زندگی میں کئی انقلابات آئے ۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فلسفہ سے ان کی ملازمت کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد بے کاری کاایک لمبا سلسلہ شروع ہوا۔ اخباروں میں کالم لکھے مگر ہمیں اندازہ ہے کہ یاتو شاید موقع ملا ہی نہ ہو یا اگر ملا ہو تو اس قدر قلیل ہو گا کہ اس سے گزارہ نا ممکن ہو گا۔ تھوڑا سہارا انہیں اس وقت ملا جب وہ لاہور میں اکیڈمی آف لیٹرز کے ڈائریکٹر ہوئے لیکن یہ بھی گریڈ 17 کی ملازمت تھی اور جب یہاں سے ریٹائرڈ ہوئے تو ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ڈائریکٹر ہو گئے۔ انہوں نے کبھی اپنی مالی مشکلات کا ذکر نہیں کیا اور اپنی سادہ زندگی پر خوش اور مطمئن رہے۔میری ان سے آخری ملاقات تقریباً 2 مہینے پہلے اُس وقت ہوئی جب وہ عاصم بٹ کے ساتھ اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے میرا انٹرویو لینے آئے تھے اور ساتھ ہی میں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ میں رشید جالندھری پر جو ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کے سابق ڈائریکٹر تھے ، اُن پر ایک مضمون لکھوں کیونکہ ثقافت کے رسالے المعارف کا خصوصی نمبر شائع کرناچاہتا ہوں۔

قاضی صاحب نے فلسفے، تاریخ اور ادب کے حوالے سے کام کیا ہے، اُس کی قدر نہ صرف اہلِ علم میں ہے بلکہ خاص طور سے سندھ اور بلوچستان کے نوجوان اُن کی کتابیں شوق سے پڑھتے ہیں اور یہی ان کا سب سے بڑا علمی ورثہ ہے۔ ترقی یافتہ قوموں میں جہاں علمی کام برابر تخلیق ہوتا رہتا ہے، ایک دانشور کے جانے کے بعد بھی اس کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لیکن ایک پسماندہ معاشرے میں جہاں اداروں کی بجائے ایک فرد کی زندگی میں ہی علم کی تخلیق ہوتی ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں فرد کا خاموش ہو جانا یا چلے جانا علمی ترقی میں رکاوٹ کا باعث ہوتا ہے۔

تازہ ترین