• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد جمال صدیقی

"بات سنیے... آپ لوگ اس بیچارے تنویر کا مذاق کیوں اڑاتے ہیں ۔ اگر اس کے پائوں میں کچھ نقص ہے تو اس میں اس غریب کا کیا قصورہے۔ آپ کی اس حرکت پہ اس کا دل کتنا دکھتا ہو گا ۔ یہ تو سب اللہ کی طرف سے ہے ، ہمیں اس کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔" ، حارث نےاپنےکالج کے دولڑکوں کو سمجھانے کی غرض سے کہا جو ایک معذورطالب علم کامذاق اڑارہے تھے۔"بس بس ، زیادہ لیکچر دینے کی ضرورت نہیںہے، ہم خود ہی اپنا اچھا برا سمجھتے ہیں۔ تم زیادہ فلاسفر بننے کی کوشش مت کر۔" ان لڑکوں میں سے ایک نے نخوت سے کہا ۔ "بہرحال میرا فرض تھا آپ کو سمجھانا۔ 

اب آپ جانیں اور آپ کا کام ۔۔۔" حارث یہ کہہ کر اپنے کلاس روم کی طرف بڑھ گیا اور وہ دونوں شعلہ بار نگاہوںسے اسے جاتا دیکھتے رہے ۔۔ "بڑا آیا نصیحت کرنے والا ، اب اس کا دماغ بھی درست کرنا پڑے گا ۔۔۔ " ان میں سے ایک نے دانت پیستے ہوئے کہا ۔ اب ان کا یہ روز کا معمول بن گیا کہ وہ حارث کا پیچھا کرتے اور اس پہ بھپتی کستے ۔۔ حارث انتہائی صبر و سکون سے یہ سب برداشت کرتا۔ حارث ایک نیک لڑکا تھا، وہ دوسروں کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتا تھا۔ اس کے والد نے اسے یہی تعلیم دی تھی کہ اگر کوئی تمہارے ساتھ برا سلوک بھی کرے تو تم اپنے اچھے اخلاق سے اس کے دل میں گھر کر لو ۔۔۔ سو وہ اپنے والد کی نصیحت پہ دل و جان سے عمل پیرا تھا ۔

یہ دونوں لڑکے حارث کے ساتھ مقامی کالج میں زیر تعلیم تھے ۔۔ آج بھی وہ سب کالج سے چھٹی کے بعد اپنے اپنے گھر کی طرف چل دیئے ۔۔حارث آگے آگے چل رہا تھا اور وہ دونوںاس سے چند قدم پیچھے تھے ۔۔۔ مقصد اس پہ جملے کسنا ، بدتمیزی کرناتھا ۔۔۔ " اور بھئی لیکچرار صاحب کیا حال ہیں ۔۔" ایک لڑکے نے باآواز بلند کہا ۔۔ دوسرے لڑکے نے ایک زوردار قہقہہ لگا کراس کا ساتھ دیا ۔۔۔ " لگتا ہے لیکچرار صاحب آج جلدی میں ہیں بڑے تیزتیز قدموں سے بھاگے چلے جا رہے ہیں یا پھر شاید ہم سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں ۔۔" دوسرے لڑکے نے فلمی انداز میں کہا ۔۔ " ہائے بیچارہ چھوٹا سا مولوی" پہلے کی آواز آئی اور پھر دونوں کے زوردار قہقہےسنائی دیئے ۔۔۔ وہ اسی طرح جملے بازی کرتے ہوئےریلوے لائن تک آ گئے ۔۔ یہ ریلوے لائن آگے جا کر ایک پہاڑ کے پیچھے مڑ جاتی تھی ۔۔حارث نے اپنی رفتار تھوڑی کم کی تو وہ دونوں اس سے آگے نکل گئے ۔

وہ اپنی جملے بازیوں میں اتنے مگن تھے کہ انہیں عقب سے آتی ہوئی تیزرفتار ٹرین کے ہارن کی آواز بھی سنائی نہ دی ۔۔۔ ایک دم حارث کی نظر ٹرین پہ پڑی جو لمحہ بہ لمحہ ان لڑکوں کے قریب آ رہی تھی ۔۔۔ اور وہ دونوں اس سے بے خبر تھے ۔۔ حارث نے چیخ کر انہیں آواز بھی دی مگراس کی آوازٹرین کے انجن کے شور میں دب گئی ۔۔۔اس موقع پر ان لڑکوں کی جان بچانے کے لیے حارث نے دلیرانہ فیصلہ کیا۔اس نے اپنی کتابیں ریلوے لائن کے برابر میں پتھروں پہ رکھیں اور تیزی سے ان کی طرف دوڑا۔۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور تیزی سے ان دونوں کو ریلوے لائن کے پار دھکا دے دیا اور خود بھی ادھر کود گیا ۔۔ پہلے تو وہ دونوںحارث کی اس حرکت پہ آگ بگولہ ہو گئے مگر جب دوسرے ہی لمحے دھڑدھڑاتی ہوئی ٹرین ان کے قریب سے گزری تو وہ لمحے بھر میں سب کچھ سمجھ گئے اور پھر وہ دونوں حارث سے شرمندگی کا اظہار کرکے اس کےگلے لگ گئے ۔

تازہ ترین