دہشت گردی کا واقعہ ہویا قتل کا،ریپ ہو یا اغواہ،کسی بھی واقعہ کی تفتیش کے لیے سب سے اہم کام شواہد اکٹھا کرنا ہوتا ہے،شواہد کے بغیر نہ تو ملزمان تک پہنچا جا سکتا ہے اور نہ ہی شواہد کے بغیر عدالت میں جرم ثابت ہوتا ہے۔دُنیا بھر میں ’’کرائم سین یونٹس‘‘ کا کردار کسی بھی کیس کو حل کرنے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے اور ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جب کرائم سین یونٹس نے بظاہر بہت معمولی اور غیر اہم نظر آنے والے شواہد کو اکٹھا کرکے ان شواہد کے ذریعے کیس کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
پاکستان میں ماضی میں کرائم سین سے شواہد اکٹھا کرنے پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے بہت سے ملزمان پکڑے جانے کے باوجود شواہد نہ ہونے پر عدالتوں سے بَری ہوگئے۔ کراچی میں اب کرائم سین سے شواہد اکٹھا کر نے کے لیے باقاعدہ ایک الگ یونٹ بنا دیا گیا ہے، جو شہر بھر میں ہونے والے واقعات کی جگہ پر پہنچتا ہے اور جدید ٹولز اور کٹس کی مدد سے شواہد کو جمع کرتا ہے۔گزشتہ دِنوں ہم نے کرائم سین ہیڈ کواٹر کا دورہ کیا ۔
اس موقع پر موجود انچارج کرائم سین ہیڈ کواٹرایاز علی صدیقی نے بتایا کہ پہلے کرائم سین یونٹ اضلاع کی سطح پر اور فارنسک ڈویژن کیساتھ کام کرتے تھے، لیکن اب کرائم سین کا ہیڈ کواٹر کراچی پولیس آفس(کے پی او) میں بنایا دیا گیا ہے۔ نومبر2019میں پہلا کرائم سین یونٹ قائم کیا گیا تھا،پہلے فیز میں8یونٹس قائم کیے گئے ہیں، جو تھانہ کلفٹن، درخشاں، بغدادی، فیروزآباد، سعود آباد، ائیر پورٹ، لیاقت آباد اور پیر آباد تھانوں میں واقع ہیں اور یہ سب آپریشنل ہیں۔
ان یونٹس میں4خواتین اہلکاروں سمیت 105اہلکار اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ ہر یونٹ کا ایک انچارج ہے،جب کہ تمام یونٹس کو ہیڈ کواٹر سے ویڈیو کیمروں کے ذریعے مانیٹر کیا جا رہا ہے،دوسرے فیز میں مزید5یونٹس قائم کیے گئے ہیں، جن میں تھانہ نبی بخش،گلشن اقبال،پریڈی،تیموریہ اور سی آئی اے شامل ہیں،دوسرے فیز میں شامل یونٹس بنا دیے گئے ہیں ،اس کے لیے درکار نفری کے لیے خط لکھ دیا گیا ہے۔ہم نے2ہزار اہلکاروں میں سے 177 اہلکاروں کو منتخب کیا تھا،اب تک 33اہلکار فائنل کر لیے گئے ہیں، جب کہ مزید اہلکاروں کے آتے ہی بہت جلد یہ یونٹس بھی فعال ہو جائیں گے ، جب کہ فیز 3میں مزید کرائم سین یونٹس بنائیں جائیں گے۔
ہر یونٹ میں12سے13اہلکار کام کر رہے ہیں،کرائم سین یونٹ کی باقاعدہ ایک وردی ہے،اس وردی کی وجہ سے جب وہ کرائم سین پر پہنچتے ہیں، تو ان کی الگ پہچان ہوتی ہے اور سب کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹیم شواہد جمع کرنے کے لیے آئی ہے،جن اہلکاروں کو منتخب کیا جاتا ہے ،انہیں پہلے 15دن کے لیے فانسک ڈویژن میں ٹریننگ کے لیے بھیجا جاتا ہے، جب کہ اس کے علاوہ بھی ان کی ورکشاپس ، ٹریننگ اور کورسزکا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ بیرون ملک سے بھی ٹرینرز کو اہلکاروں کی ٹریننگ کے لیے بلائیں۔ پہلے کرائم سین یونٹس میں زیادہ تر اہلکار50سال سے زائد عمر کے تھے، لیکن ہم نے اب نوجوانوں کو اس کا حصہ بنایا ہے اور 40برس سے کم عمر اہلکاروں کو منتخب کیا گیا ہے ۔
کرائم سین یونٹ کا کام کرائم سین پر جا کر شواہد جمع کرنا ہے، جس میں فنگر پرنٹس،فُٹ پرنٹس((foot prints،ڈی این اے ، فائبر اور دیگر شواہد شامل ہیں۔شوہد لینے کے بعد انھیں انویسٹی گیشن آفیسر کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جسے وہ لیب میں بھیجتا ہے،ڈی این اے کے سیمپل کراچی یونی ورسٹی بھجوائے جاتے ہیں، جب کہ فنگر پرنٹس،فٹ پرنٹس اور فائبر سیمپل فارنسک لیب بھجوائے جاتے ہیں۔’’کرائم سین یونٹ‘‘ کا کام بہت اہم ہے،اگر کرائم سین سے شواہد ضائع ہو جائیں، تو پھر انویسٹی گیشن آفیسر بھی شواہد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا اور اس کا فائدہ ملزمان کو پہنچتا ہے۔انچارج کرائم سین ہیڈ کواٹر کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ فوراً رسپانس کریں اور کرائم سین کو secureکریں،پہلے پولیس اہلکار اور ریسکیو ادارے کرائم سین کی حساسیت کا خیال نہیں رکھتے تھے ،جس کی وجہ سے بہت سے شواہد ضائع ہو جاتے تھے، لیکن اب آہستہ آہستہ اس حوالے سے آگاہی دی جا رہی ہے ۔
ہمارے پاس شواہد کو جمع کرنے اور انھیں محفوظ رکھنے کے لیے مختلف کٹس موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک ہم 566واقعات کے شواہد جمع کر چکے ہیں، جن میں دہشت گردی کے15،قتل کے62،اغواہ برائے تاوان کے8،گھروں میں ڈکیتی کے264،بینک ڈکیتی کے3،ریپ کے 5اور دیگر 209واقعات کے شواہد شامل ہیں۔ کرائم سین یونٹ کے سربراہ مقدس حیدر کی نگرانی میں ایک کرائم سین پورٹل بھی بنایا گیا ہے، جسےcsu portalکا نام دیا گیا ہے،اس پورٹل میں کرائم سین کا ڈیٹا بیس بن رہا ہے ، اب تک جتنے بھی کیسز ہوئے ہیں، ان کا ڈیٹا اس پورٹل پر دستیاب ہے۔ ایاز صدیقی نے مزید بتایا کہ گذشتہ دنوں پُرانی سبزی منڈی کے قریب ریپ کے بعد قتل ہونے والی5سالہ بچی مروہ کاکیس میں بھی کرائم سین یونٹ کی وجہ سے حل ہوا۔کرائم سین سے جمع کیے گئے شواہد کے بعد واقعہ میں ملوث دو ملزمان فنگر پرنٹس سے ٹریس ہوئے، جب کہ دو ملزمان کا ڈی این اے میچ ہوا۔
اسی طرح ڈیفنس سے اغواہ ہونے والی دو لڑکیاں بسمہ اور دُعا منگی کیس میں بھی کرائم سین یونٹ نے کام کیا،بسمہ کو اغواہ کر کے جس اسٹور نما کمرے میں رکھا گیا تھا، وہاں سے ایک کنگھی ملی تھی ،اس کنگھی سے کچھ بال ملے تھے ،دُعا منگی والے کیس میں بھی کرائم سین سے بال ملے تھے، جو آپس میں میچ ہوئے،دونوں کو اغواہ کے بعد ایک ہی جگہ رکھا گیا تھا۔ 2017میں حیدر آباد میں پاکستان مسلم لیگ فنگشنل کی رہنما سارہ نصیرکی جلی ہوئی لاش، کار سے ملی تھی،لاش کو کار سمیت جلا دیا گیا تھا۔
گاڑی مکمل طور پر جل چکی تھی،گاڑی کے چیسز اور رجسٹریشن سے پتہ چلا کہ یہ سائرہ نصیر کی لاش ہے،جب ہم ان کے گھر پہنچے تو گھر میں تالا لگا ہوا تھا،یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ان کا قتل کہاں ہوا ہے۔ ہم نےlight sources کے ذریعے ان کے گھر سے شواہد جمع کیے، تو ہمیں وہاں دو افراد کےfoot prints ملے،ہمارے آنے سے قبل پُورے گھر کی صفائی کر دی گئی تھی۔
تاہم ہمیں پارکنگ اور گھر باتھ روم سے فٹ پرٹنس ملے، جن میں خون کے نشان بھی تھے، جو بعد میں ان کے بیٹے اور بہو سے میچ ہوئے۔بعد ازاں ان کے بیٹے نے قتل کا اعتراف بھی کر لیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہافسران اور اہلکاروں کو اس بات کی آگاہی دی جائے کہ وہ کرائم سین یونٹ کے پہنچنے سے قبل کرائم سین کو محفوظ بنانے میں اپنا کرادار ادا کرے۔