• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی سرگرمیوں کو کورونا کا بہانہ بنا کر نہیں روکا جاسکتا، شاہد خاقان


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ سیاسی سرگرمیوں کو کورونا کا بہانہ بنا کر نہیں روکا جا سکتا۔

صوبائی وزیر خیبرپختونخوا شوکت یوسف زئی نے کہاکہ اپوزیشن احتساب کے عمل کے خلاف لوگوں کو استعمال کرنا چاہتی ہے،تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ حکومت کے لئے خطرہ خود حکومتی کارکردگی ہے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت کی کورونا کیلئے کوئی پالیسی نہیں ہے لوگ خود اپنا تحفظ کررہے ہیں، ہم نے کوئٹہ میں جلسہ کیا وہاں لوگوں کو ماسک فراہم کیے،پشاور اور دیگر جلسوں میں بھی ایس او پیز پر عمل کیا جائے گا،ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ صرف پی ڈی ایم جلسے سے ہی کورونا پھیلے گا،ہمارا جلسہ کھلی فضا میں ہوگا ہر شخص کے پاس ماسک ہوگا ،اس لئے وہاں کورونا کے پھیلاؤ کا کوئی اضافی خطرہ نہیں ہے۔ 

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ سیاسی سرگرمیوں کو کورونا کا بہانہ بنا کر نہیں روکا جاسکتا ہے، حکومت جلسے کرتی رہی مگر پی ڈی ایم کا جلسہ آیا تو لاک ڈاؤن آگیا، مجھے کورونا کھلے میدان میں نہیں لاہور ہائیکورٹ کے بند کمرے سے ہوا تھا۔

حکومت پالیسی بنادے کہ کوئی پبلک گیدرنگ نہیں ہوگی تو اس کا احترام ہوسکتا ہے، ملک میں کاروبارِ زندگی جاری ہے صرف پی ڈی ایم کا جلسہ روکا جارہا ہے، جلسے میں آنے والا ہر شخص اپنا فیصلہ خود کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ کیا منطق ہے کہ 300لوگ جمع ہوں تو کورونا نہیں ہوسکتا۔

صوبائی وزیر خیبرپختونخوا شوکت یوسف زئی نے وباؤں کے قانون میں موجود تمام ایس او پیز پر عمل کریں گے، ہم کوئی زبردستی یا طاقت کا استعمال کرنا نہیں چاہتے ہیں۔

اپوزیشن کو کہا بے شک جلسہ کریں لیکن پہلے خدشات سن لیں، اپوزیشن جلسہ کر کے حکومت نہیں گراسکتی، اپوزیشن احتساب کے عمل کے خلاف لوگوں کو استعمال کرنا چاہتی ہے، جلسے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا عوام کو فرق پڑے گا۔ 

شوکت یوسف زئی کا کہنا تھا کہ این سی او سی کے اجلاس میں چاروں صوبوں موجود ہوتے ہیں، این سی او سی کا پابندی کا فیصلہ ہمارے جلسوں کے بعد آیا ہے، این سی او سی کے فیصلوں میں وزیراعلیٰ سندھ بھی شریک ہوتے ہیں، سوات کا جلسہ کیا تو کورونا کا پھیلاؤ صرف 1.4فیصد تھا۔

اس وقت ہمیں صحت کارڈ تقسیم کرنا تھا جو خیبرپختونخوا کا میگا پراجیکٹ ہے، گلگت بلتستان کے انتخابات تک صورتحال کنٹرول میں تھی، کورونا ختم ہونے کے بعد گیارہ جماعتیں مل کر جلسہ کریں پی ٹی آئی اکیلا جلسہ کرے گی فیصلہ ہوجائے گا کس کا جلسہ بڑا ہوگا، مذہب سے متعلق چیزوں کو روکنے سے مسئلے مزید گمبھیر ہوجاتے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ اپوزیشن میں دراڑیں پڑگئی ہیں اورتقسیم گہری ہوتی جارہی ہے، حکومت کہیں نہیں جارہی ہے، سویلین اور عسکری قیادت اس وقت ایک صفحہ پر ہے، اپوزیشن اسلام آباد آکر 326دن بھی بیٹھ جائے حکومت گھر نہیں جائے گی، حکومت کیلئے خطرہ خود حکومت کی کارکردگی، مہنگائی اور عوامی ایشوز ہیں، حکومت سے مہنگائی کنٹرول نہیں ہوپارہی، گورننس کے بھی سنجیدہ مسائل ہیں، حکومت کے اندر بھی دھڑے بازیاں ہیں۔

ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی اور رابطے جاری ہیں، سب انگیجمنٹ ہوگئی ہے یہ صرف کمپنی کی مشہوری کیلئے بیان بازی ہے، مریم نواز نے خود انٹرویو میں بتایا کہ میرے اردگرد کے لوگ رابطوں میں ہیں، ملک میں کسی میں دم نہیں کہ تصادم کی طرف جائے زبانی کلامی ہوائی فائرنگ ہورہی ہے۔ 

ارشاد بھٹی نے کہا کہ نواز شریف کے خودساختہ بیانیہ اور تقریریں حکومت کیلئے سودمند ثابت ہورہی ہیں، سابق وزیراعظم کی تقریروں سے حکومت کو گلوکوز کی بوتلیں لگ رہی ہیں۔ 

نواز شریف نے دو چار تقریریں کرلیں تو حکومت مزید بہتر ہوجائے گی، اپوزیشن کے کھیل میں حکومت اور باقی اداروں کے پاس کوئی آپشن نہیں رہ جاتا ہے، یہ آپشن نہیں کہ کسی کی ہرزہ سرائی پر حکومتیں گرادی جائیں۔

میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی انتظامیہ نے پشاور میں اپوزیشن کو جلسے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے،نوٹیفکیشن کے مطابق پشاور میں مثبت کیسوں کی شرح 13فیصد سے زیادہ ہے کوئی بھی بڑا مجمع اس میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

پی ڈی ایم رہنماؤں نے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تو بھرپور جواب دیں گے،اہم بات یہ ہے کہ آزاد کشمیرمیں ن لیگ کی حکومت نے کورونا کے پھیلاؤ کے پیش نظر 22 نومبر سے لاک ڈاؤن عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو 6دسمبر تک جاری رہے گا۔

سندھ میں جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے وہاں کراچی میں ضلعی انتظامیہ نے ہر ضلع میں کورونا کی وجہ سے اسمارٹ اور مائیکرو لاک ڈاؤن لگانے کا فیصلہ کیا ہے،یعنی جہاں اپوزیشن کی حکومتیں ہیں وہاں کورونا سے بچاؤ کیلئے لاک ڈاؤن کیا جارہا ہے مگر جہاں تحریک انصاف حکومت میں ہے وہاں اپوزیشن بڑے جلسے کرنے جارہی ہے۔

صرف یہی نہیں جب کورونا کی پہلی لہر میں وزیراعظم عمران خان مکمل لاک ڈاؤن کیخلاف باتیں کرنے لگے تو اپوزیشن جماعتیں ان پر تنقید کرتی تھیں اور سخت لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا کہتی تھیں، حکومت اپوزیشن کو جلسوں سے روک رہی ہے لیکن کورونا کے پھیلاؤ کے رجحان کے باوجود خود جلسے کرتی رہی ہے۔

حکومت نے اپوزیشن کو کورونا کی وجہ سے گوجرانوالہ جلسے سے منع کیا مگر خود وزیراعظم نے حافظ آباد اور سوات میں جلسہ کیا جس میں ایس او پیز پر عملدرآمد نہیں ہوا، پھر وزیراعظم نے گلگت بلتستان میں تقریب سے خطاب کیا، 10نومبر کو فیصلہ ہوا کہ کورونا کے پیش نظر جلسے نہیں ہونے چاہئیں لیکن 11نومبر کو حکومت نے پھر گلگت میں جلسہ کیا۔

اسی دوران تحریک لبیک ہزاروں کارکنان کے ساتھ اسلام آباد آئی لیکن کسی وزیر نے اس کیخلاف بیان نہیں دیا، آج مینار پاکستان میں تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی جس میں ہزاروں افراد کی شرکت متوقع ہے اس کی بھی حکومت نے اجازت دیدی ہے۔

شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پاکستان شوگر ملرز ایسوسی ایشن نے وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر کو خط لکھا ہے جس میں گلہ کیا ہے کہ شوگر ملز نے تو حکومتی پالیسی کے ساتھ کرشنگ شروع کردی ہے مگر گنے کے کاشتکاروں نے ملک کے اکثر حصوں میں کٹائی ہی شروع نہیں کی ہے۔

خط کے مطابق کسان حکومت کی طرف سے مقرر کی گئی 200روپے فی من سے بھی زیادہ قیمت مانگ رہے ہیں، شوگر ملز کو گنے کی فراہمی میں کمی برقرار رہتی ہے تو کرشنگ بند کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ 

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ کسان غصے میں ہیں کہ دو سال سے مہنگی چینی بیچی جارہی ہے مگر ان سے سستا گنا لیا جارہا ہے، چینی کی قیمت 55روپے سے بڑھ کر دگنی 110روپے فی کلو ہوگئی، چینی پورا سال مہنگی رہی حکومت نے اس وقت درآمد کی جب پورے سیزن کی چینی شوگرملز مالکان مہنگے نرخوں پر بیچنے میں ناکام ہوگئے۔

عوام کی جیب سے 185ارب روپے زیادہ نکالنے میں کامیاب ہوگئے،اب شوگر ملز مالکان حکومت کو کہہ رہے ہیں کہ 200روپے کے سرکاری نرخ پر گنا بیچنے کیلئے کاشتکار کو مجبور کیا جائے۔

یاد رہے شوگر کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شوگر ملز مالکان کی بات درست بھی مان لی جائے کہ انہوں نے گنا 190روپے کا نہیں لیا، اگر 215روپے گنے کی قیمت کے حساب سے بھی چینی کی قیمت کا تخمینہ لگایا جائے تو بھی چینی کی ایکس مل قیمت 63روپے 13پیسے بنتی ہے، اگر 190روپے پر گنے کی قیمت لگائی جائے تو چینی کی قیمت 57روپے 69پیسے ہونی چاہئے۔ 

وزیراعظم کو شوگر کمیشن نے بتایا کہ جن لوگوں کا تحریک انصاف کی حکومت پر سیاسی اثر و رسوخ تھا انہوں نے اسے استعمال کر کے تحریک انصاف کی حکومت سے سبسڈی لے لی۔

شوگر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق چینی کی پیداوار اور سبسڈی کا سب سے بڑا حصہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے پاس ہے، جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو کو پنجاب حکومت سے 22فیصد سبسڈی ملی، خسرو بختیار کے خاندان کی شوگرملز کو 18فیصد سبسڈی ملی، اس طرح 40فیصد سبسڈی تحریک انصاف کے رہنماؤں کو ملی۔

شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہوچکی ہے، اس کی بڑی وجہ جولائی سے اکتوبر تک چار مہینے میں مسلسل کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہے، سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ سلسلہ برقرار رہے گا۔

کورونا کے بعد معاشی سرگرمیاں جیسے ہی مکمل بحال ہوں گی کرنٹ اکاؤنٹ پھر سے خسارے میں جانے کا خدشہ ہے، کورونا وائرس کی وجہ سے حکومت کو اب تک فائدہ ہوا اور کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا ہے۔

بزنس ریکارڈ میں شائع تحقیق کے مطابق آخری چھ ماہ میں سے 5ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا ہے ، اس رجحان کے پیچھے ایک بڑی وجہ کورونا وائرس ہے، یہ بات واضح ہے اگر کورونا نہ ہوتا تو کرنٹ اکاؤنٹ بھی سرپلس نہ ہوتا بلکہ گزشتہ مالی سال سے بھی زیادہ خسارے میں ہوسکتا تھا، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کی بڑی وجہ ترسیلات زر میں اضافہ رہا۔

رواں مالی سال کے چار مہینے میں ترسیلات زر میں 2ارب ڈالرز کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، اس عرصے میں این جی اوز سے ملنے والی امداد میں بھی 553ملین ڈالرز اضافہ ہوا، کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کی ایک وجہ درآمدات کی کمی بھی تھی، اس کے علاوہ سفری اخراجات میں کمی بھی دیکھی گئی۔

جولائی سے ستمبر تک ایئرٹکٹ کی مد میں 17کروڑ ڈالرز کم خرچ ہوئے، ہوٹل بکنگ، کریڈٹ کارڈ اور دیگر سفری اخراجات میں بھی ساڑھے 18کروڑ ڈالرز کی کمی آئی، اگر صورتحال کورونا وائرس سے پہلے جیسے ہوتی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ سکتا تھا۔

شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ آئندہ پیر کو اسٹیٹ بینک مانیٹری پالیسی کا اعلان کرے گا، ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سروے میں 87.5فیصد کی رائے ہے کہ اسٹیٹ بینک شرح سود 7فیصد پر برقرار رکھے گا، جب یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ مانیٹری ٹائٹنگ کی کب سے توقع کررہے ہیں؟ تو اکثریت کا جواب تھا کہ اگلے 3ماہ میں ایسا نہیں ہوگا البتہ 42فیصد کی رائے ہے کہ مارچ 2021ء سے اسٹیٹ بینک شرح سود میں اضافے کی طرف جاسکتا ہے۔

اب دیکھنا ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں کتنی کامیاب ہوتی ہے، اگر حکومت آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرتی ہے تو آئی ایم ایف کی دیگر ڈیمانڈز کے ساتھ مہنگائی پر شرح سود کیلئے کیا ڈیمانڈ ہوتی ہے۔  

تازہ ترین