• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ زمین پر زندگی کو، زندہ چیزوں کو سمجھنا چاہتے ہیں ، اس بات پہ غور کرنا چاہتے ہیں کہ زندگی کیسے پیدا ہوئی لیکن جینز کو پڑھنا نہیں چاہتے تو یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے آپ اینٹ کو سمجھے بغیرایک فلک شگاف عمارت کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ جینز کیا ہیں ؟ یہ ایک جاندار کی جانب سے اپنی اولاد کومنتقل کی جانے والی وہ خصوصیات ہیں، انگریزی میں جنہیں Genetic materialکہتے ہیں۔ یہ خصوصیات کسی بھی جاندار کی طرف سے اس کی آخری نسل تک نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچّے اپنے ماں باپ سے مشابہ نظر آتے ہیں۔ ان کا قد، ان کے بال اور ان کا رنگ روپ ماں باپ سے مشابہ ہوتا ہے۔

زندہ چیزوں میں سب سے چھوٹی اینٹ خلیہ کہلاتی ہے۔ جینز میں یہ سب معلومات لکھی ہوتی ہیں کہ ان خلیات کی اینٹوں نے کیسے انسانی جسم تعمیر کرنا ہے۔ یہ خلیات کا سافٹ وئیر ہے۔ جسم کے خلیات نے جہاں قد کاٹھ اور شکل و صورت کو ترتیب دینا ہے، وہیں عصبی خلیات نے ہماری سوچ اور روّیے تشکیل کرنا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ماں باپ کی عادات اولاد میں جھلکتی ہیں۔ وہ تمام احکامات جینز میں درج ہوتے ہیں۔انہی جینز سے ایک جاندار کی شکل و صورت اور اس کی عادات تشکیل پاتی ہیں۔ اسی وجہ سے خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ساتھ کئی جسمانی اور ذہنی بیماریاں بھی نسل درنسل منتقل ہوتی ہیں۔ خاندان کے اندر نسل درنسل شادیوں سے اولاد میں بعض ذہنی و جسمانی بیماریوں کی شرح بڑھ جاتی ہے۔

خوردبینی سطح پہ اترے بغیر آپ نہ کائنات کو سمجھ سکتے ہیں ، نہ ہی زندگی اور اپنے جسم کو۔ ایک عام آدمی سورج کو دیکھ کر یہی سوچ سکتاہے کہ وہاں آگ جل رہی ہے۔ یہ سائنسدان ہی جانتے ہیں کہ ہائیڈروجن کے ایٹم فیوژ ہو کر ہیلیم میں بدل رہے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سورج نے ایک دن فنا بھی ہونا ہے۔

مغرب نے جینزمیں گراں قدر کام کیا ہے ۔’’ہیومن جینوم پروجیکٹ‘‘ اس کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ 1984ء میں امریکی حکومت کی سرمایہ کاری سے یہ منصوبہ دو عشروں میں مکمل ہوا۔ انسانی دماغ اور جسم، اس کے روّیے اور شکل و صورت، نسل درنسل منتقل ہونے والی بیماریوں کا سبب بننے والے تمام جینز کی شناخت کے بعد ان کا ایک نقشہ ترتیب دیا گیا۔ چوہے کی طرح، انسان میں بھی کل 30ہزار جینز پائے جاتے ہیں۔اس منصوبے کی مدد سے انسان اس طرف پیش رفت کر رہا ہے کہ قبل از وقت ان بیماریوں کی شناخت اور روک تھام کی جا سکے، ماں باپ سے جو اولاد میں منتقل ہوتی ہیں۔ یوں انسان اپنے جسم اور دماغ کو توپوری طرح سمجھ ہی جائے گا۔ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی جان جائے گا کہ وہ کون سے جینز ہیں، جن کی وجہ سے حیاتیاتی طور پر دوسرے جانوروں جیسا ہی ایک جانور، ہومو سیپین دوسرے سیاروں پہ اتررہا ہے ۔جب آپ جینز کو پوری طرح سمجھ جائیں گے تو پھر انسانی ذہانت اور قد کاٹھ وغیرہ میں مداخلت کے قابل بھی ہو سکتے ہیں۔

وہ قدیم ترین انسانی عضو ، جس کے جینز کا کامیابی سے جائزہ لیا گیا ، 2008ء میں سائبیریا سے دریافت ہونے والی ایک انسانی ٹانگ تھی ، جس کی عمر 45ہزار سال تھی ۔بہت سی داستانیں اس پہ نقش تھیں۔ آدمی کب افریقہ سے نکل کے یورپ اور ایشیا کی طرف بڑھا۔ کب اس کی یورپ کی اس عجیب و غریب انسانی نسل نی اینڈرتھل مین (Neanderthal Man)سے ملاقات ہوئی۔ برسبیلِ تذکرہ یہ کہ نی اینڈرتھل مین کے جینز کا مشاہدہ بھی مکمل صحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ موجودہ انسانوں سے چھوٹے قد اور قدرے بڑے سر والا یہ آدمی اتنی بڑی حقیقت ہے کہ صرف تعصبات کا مارا ہی اسے جھٹلا سکتاہے۔23ہزار سال پہلے پھر وہ ناپید ہو گیا۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہومو سیپین نے اسے مار ڈالا۔ استادِ محترم پروفیسر احمد رفیق اختر کا کہنا یہ ہے کہ وہ آدم خور تھا اور یہی اس کی بربادی کی وجہ ہے۔ بعض جاندار برف میں دفن ہو کر مرے اور ہزاروں سال تک گلنے سڑنے سے محفوظ رہے ۔ایسا قدیم ترین جانور سات لاکھ سال پرانا ایک گھوڑا ہے۔

جس طرح سے انسانوں (ہومو سیپین ) میں علم ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا چلا جا رہا ہے ، کسی اور جانور میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔انسان اس قابل ہو چکا ہے کہ آسمان کی بلندی سے نازل ہونے والی آفت سے لے کر سمندر سے اٹھنے والے طوفانوں تک ، ہر چیز کا جائزہ لے سکے۔ ایک وقت تھا ، جب آفت سے بچ نکلنے والے ملاح ایک دوسرے کو اس سے آگاہ کرتے تھے۔ ریڈیو کی ایجاد کے بعد سمندر میں موجود جہازوں سے یہ اطلاعات دور دراز تک پہنچنے لگیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران پھر ہوائی جہازوں سے طوفانوں کا جائزہ لیا گیا۔ اس کے بعد سیٹلائٹس یہ کارِ خیر سر انجام دینے لگے؛حتیٰ کہ وہ وقت آیا، جب کئی ہفتے قبل ہی بڑے سمندری طوفان کی پیشگوئی کی جانے لگی ۔ساحلوں پہ ریڈار نصب ہیں۔ 2005ء میں ناسا نے سمندری طوفان اوفیلیا کے مرکز میں بغیر پائلٹ کا ایک طیارہ اتار دیا تھا۔

مغرب نے مسلمانوں کو کیسے زیر کیا ؟ تحقیق (Research)کی مدد سے بننے والی برتر ٹیکنالوجی کے بل پر۔ پاکستان کو اگر اقوامِ عالم میں اپنا لوہا منوانا ہے تو تحقیق کے میدان میں قدم بڑھانا ہوں گے۔ جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ہم اس قابل نہیں ، انہیں ایک دفعہ پاکستانی ایٹمی اور میزائل پروگرام پہ نگاہ ڈالنا چاہئے۔ آگے ہم بڑھ سکتے ہیں۔ شر ط یہ ہے کہ گزشتہ چندصدیوںمیں مغرب نے جو گراں قدر ریسرچ کر ڈالی ہے ، اسے ایک سبق کی طرح پڑھنا شروع کریں ۔دوسرا فیز اس کے بعد شروع ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین