• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ کورونا لاک ڈائون سے پہلے وسطی لندن کے ایک پوش ریسٹورنٹ میں میزبان نے میرا تعارف ایکسن رسیدہ خاتون سے کرواتے ہوئے کہا ’’اِن سے ملئے یہ بیرونس شریلا فلیدر ہیں، ٹوری پارٹی کی معروف رہنما‘‘ ہائوس آف لارڈز کی رکن اور ایک بڑا عرصہ تعلیم و تدریس کے شعبہ سے منسلک رہی ہیں۔ مسٹر ڈیوڈ جونز گزشتہ پندرہ سال سے میرے شناسا ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ میں صحافی ہوں اور میرا آبائی تعلق لاہور سے ہے، تعارف کرواتے ہوئے ڈیوڈ نے کہا کیا تم جانتے ہو شریلا فلیدر کے پڑدادا کا تعلق لاہور سے تھا اور وہ لاہور و پنجاب کے عظیم ترین محسنوں میں شمار ہوتے ہیں؟ ڈیوڈ جونز پاکستان بننے سے پہلے لاہور میں پیدا ہوئے، اس لئے انہیں بھی لاہور سے خاص اُنسیت ہے۔ جونز نے بتایا کہ شریلا فلیدر سر گنگا رام کی پڑپوتی ہیں۔ میں یہ سُن کر دنگ رہ گیا اور کسی حد تک شرمندہ بھی ہوا کہ شریلا فلیدر کو کیا پتا کہ پنجاب یا لاہور کے 95فیصد لوگوں کو تو علم ہی نہیں کہ رائے بہادر سر گنگا رام کون تھے اور پنجاب بالخصوص لاہور کے لئے ان کی گراں قدر خدمات کیا ہیں اور انہی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں رائے بہادر اور سر کے خطابات کے ساتھ ساتھ اُس وقت کے بادشاہِ انگلستان نے ملاقات کے لئے بکھنگم پیلس لندن بھی بلایا تھا۔

ماضی کے چند بند دریچے کھولیں تو نظر آئے گا کہ پچھلی حکومت کے خادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف جس ماڈل ٹائون کے مکین تھے، سر گنگا رام نے اس کی بنیاد پاکستان بننے سے تقریباً 20سال پہلے رکھی تھی اور لاہور کی پوش آبادی گلبرگ کا منصوبہ بھی سر گنگا رام نے ہی منظور کروایا تھا، ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے محسنوں اور ہیروز کو بھی متعصبانہ انداز میں مذہب، عقیدے اور رنگ و نسل کے ترازو میں تول کر نفرت کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں، اسی لئے قیام پاکستان کے بعد لاہور میں نصب ان کا مجسمہ بٹا دیا گیا لیکن سر گنگا رام بلاشبہ ایک ایسا نام ہے جو پنجاب کا ایک عظیم سپوت ہونے کے ناطے ہمارے آج کے حکمرانوں اور عوام کے لئے قابل تکریم و ستائش ہونا چاہئے کیونکہ گنگا رام اگرچہ حکمران نہیں تھے لیکن انہوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جو کارہائے نمایاں سر انجام دیے، اس پر انہیں آج بھی خراج عقیدت پیش کیا جانا چاہئے، رائے بہادر سر گنگا رام ایک انسان دوست شخصیت، ایک بہترین سول انجینئر اور ایک کاشتکار کے طور پر بھی اپنی مثال آپ تھے وہ لاہور کے قریب قصبہ مانگٹا والا میں پیدا ہوئے، گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی، اُن کے کارنامے پڑھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اُس وقت کا سارا لاہور ہی سر گنگا رام نے تعمیر کرایا تھا۔ مثلاً ایچی سن کالج لاہور کی تعمیر و ڈیزائن، لیڈی مینارڈ انڈسٹریل اسکول کی تعمیر، جنرل پوسٹ آفس، گلبرگ، ماڈل ٹائون کا ڈیزائن، لاہور میوزیم کا ڈیزائن، میو ہسپتال کے البرٹ ونگ کی تعمیر، لیڈی مکلیگن گرلز اسکول کا ڈیزائن، راوی روڈ ہائوس فار ڈسیبل پرسنز کی تعمیر، لیڈی میری نرڈ انڈسٹریل سکول کی تعمیرجبکہ رینالہ خورد پاور ہائوس کی تعمیر اپنے ذاتی خرچ پر کروائی، پٹھانکوٹ سے امرتسر تک ریلوے ٹریک کی تعمیر، اپنے ذاتی خرچ پر تعمیر کیا جانے والا ہائیڈ رالک پلانٹ جسے ہزاروں میل کے نہری نظام میں بدل کر لاکھوں ایکڑ زمین کو پانی مہیا کیا گیا، انہوں نے حکومت سے 50ہزار ایکڑ زمین لیز پر لی اور صرف تین سال میں 200کلو میٹر کے اس بنجر علاقے کو سرسبز و شاداب کھیتوں میں بدل دیا۔ ماضی کے منٹگمری اور آج کے ساہیوال کے قریب کا یہ علاقہ آج بھی سر گنگا رام کی کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

سر گنگا رام کا یہ اعزاز بھی ہے کہ وہ جس کالج میں تعلیم حاصل کرتے رہے، اسی کالج یعنی گورنمنٹ کالج کا کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ بھی تعمیر کرایا، گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ مال روڈ لاہور کے بعد خدمتِ انسانی کے جذبے کے تحت گنگا رام ہسپتال لاہور کا قیام ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے جو پنجاب خصوصاً لاہور کے عوام کو گنگا رام کی یاد دلاتا رہے گا، لیکن افسوس کہ تعصب کی عینک اور تنگ نظری نے ہمیں گنگا رام کو کبھی یاد کرنے دیا نہ بھگت سنگھ کو اور نہ ہی آزادی و انسانیت کے کسی دوسرے محسن کا دن منانے دیا کیونکہ یہ ہمارے ہم مذہب نہیں تھے، گزرتے وقت نے ہمارے، ہیروز تو بدل دیئے لیکن ہمارے اذہان کی وسعت کو محدود بھی کر دیا، ہم نے اپنے کئی ایک شہروں، گلیوں اور محلوں کے نام صرف اس لئے تبدیل کر دیئے کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے نام پر تھے حالانکہ کسی کے نام کی تختی کسی جگہ اس وقت لگائی جاتی ہے جب اس نے کوئی ایسا کام یا خدمت انجام دی ہو جس کا براہ راست تعلق دیگر انسانوں کی بھلائی یا ملکی تعمیر و ترقی کے ساتھ ہو۔ آج کے ہمارے حکمرانوں کے لئے بھی اس میں ایک سبق ہے کہ اگرچہ سر گنگا رام حکمران و سیاست دان نہیں تھے، وہ ’’پی ڈبلیو ڈی‘‘ کے ملازم تھےاوراپنے منصوبوں کے لئے انگریز سرکار سے اجازت لینا پڑتی تھی لیکن ہمارے حکمران تو خود سرکار ہیں، سر گنگا رام کو خدمت خلق کا جنون تھا، وہ ہر خدمت میں سرخرو رہے۔ انہوں نے لاہور جڑانوالہ ریلوے ٹریک پر گھوڑا ٹرین چلا کر ایک اچھوتا ذریعہ سفر متعارف کروایا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے رویوں پر شرمسار ہونا چاہئے کہ بہت سے دیگر قومی ہیروز کی طرح بحیثیت قوم ہم نے سر گنگا رام کی بیشمار خدمات کے اعتراف کا رتی برابر بھی حق ادا نہیں کیا۔ حق دار کو اس کا حق دینے میں بخل نہیں کرتیں، کیا اُمید کی جا سکتی ہے کہ ’’پی ٹی آئی‘‘ کی موجودہ حکومت ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کرتے ہوئے سر گنگا رام کی لندن میں مقیم پڑپوتی بیرونس شریلا فلیدر کو دورہ لاہور کی دعوت دے کر اُن کے پڑ دادا اولڈ راوین سر گنگارام کو خراجِ عقیدت پیش کرے گی اور اُن کی بے پایاں خدمات کو سراہنے کا کوئی اہتمام کرے گی؟ اِس کی ایک مثال لاہور سے تعلق رکھنے والے لندن کے ایک متمول بزنس مین سلطان حیات نے برطانوی ہائوس آف لارڈز کی رکن شریلا فلیدر کو اپنی سماجی تنظیم ’’لاہور کلب یو کے‘‘ کی تا حیات پیٹرن انچیف بنا کر سر گنگا رام کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔

تازہ ترین