• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک دور تھا، جب دولہے کو نوٹوں والا ہار پہنایا جاتا تھا۔ اب تو نوٹوں والے ہار ختم ہو چکے ہیں لیکن مجھے حیرت ہوئی جب میں نے لاہور کے معروف ’’شاہ عالمی‘‘ بازار میں ایک ہاروں والی دکان پر نوٹوں والے ہار لٹکتے دیکھے۔ میں نے دکاندار سے پوچھا کہ کیا آج کل بھی یہ ہار بکتے ہیں؟ اُس نے طنزیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور ایک حیرت انگیز جملہ کہا ’’بھائی صاحب اِس ہارکی تو اتنی ڈیمانڈ ہے کہ ہمارے لیے آرڈر پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے‘‘۔ میں مبہوت رہ گیا اور ڈرتے ڈرتے ایک اور سوال پوچھا ’’کیا سہرے بھی اسی ذوق و شوق سے فروخت ہوتے ہیں؟‘‘ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ’’سہرے تو اتنے فروخت ہوتے ہیں کہ ہمیں دو شفٹوں میں کاریگربٹھانے پڑتے ہیں‘‘۔ میں چیونگم بہت کم کھاتا ہوں‘ میرے دوستوں میں بھی کوئی ’’ببل گم‘‘ کا شوقین نہیں لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ٹی وی پر ببل گم کا اشتہار مہنگے ترین ریٹس پر چلتا ہے۔ میں نے ایک ببل گم بنانے والی کمپنی کے بندے سے پوچھا کہ دو روپے کی ببل گم کوئی خریدتا بھی ہے یا نہیں؟ اُس نے بھی حیران کن جواب دیا ’’جناب اس کام میں تو اتنی کمائی ہے کہ جھولیا ں بھر بھر کے پیسے آتے ہیں‘‘۔

ہم بہت ساری چیزوں سے دور ہو چکے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ یہ چیزیں اب کسی کے استعمال میں نہیں رہیں‘ لیکن تھوڑی سی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ہر پروڈکٹ کا کوئی نہ کوئی گاہک موجود ہے۔ محلے کی دکانوں پر بکنے والی ایک روپے والی ٹافی بھی کہیں نہ کہیں بنتی ہے اور اِس ایک چھوٹی سی ٹافی کے بل بوتے پر کئی لوگ کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ سستے میٹریل سے تیار ہونے والی ’’سوفٹی‘‘ اور ہوائی چپل آج بھی دھڑا دھڑ بنتی ہے اور اسے استعمال کرنے والے کم ہونے کی بجائے زیادہ ہو گئے ہیں۔ اصل میں ہمارا سارا فوکس شہروں کی طرف ہوتاہے‘ ہمیں لگتاہے کہ شہروں میں جس چیز کا فیشن ہے وہی پورے پاکستان کی ڈیمانڈ ہے حالانکہ ایسا نہیں۔ہمیں گنتی کے بیس تیس پیشے یاد ہیں اور لگتاہے کہ بس یہی پیشے کمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ کبھی جی ٹی روڈ یا مین ہائی وے پر لمبا سفر کیجئے‘ آپ کو بےشمار ایسی دکانیں نظر آئیں گی جن کا پیشہ سمجھ میں ہی نہیں آتا۔

جو کام ہماری سمجھ میں نہیں آتے وہ ہمیں بےکار لگتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ وہ کام اچھا ہے جو مقبول عام ہے اور جگہ جگہ اس کی دکانیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک محلے میں دس پرچون کی دکانیں تو ہوں گی لیکن ضروری نہیں کہ وہاں صوفے پوشش کرنے والا بھی بیٹھا ہو۔ ہماری سمجھ میں نہ آنے والے کام ہی وہ کام ہیں جو منافع کا باعث بنتے ہیں کیونکہ انہیں کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ایسی بہت سی چیزیں ہیں جنہیں ہم خریدنے نکلیں تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ یہ کون سی دکان سے ملیں گی۔ مثلاً میرے ایک دوست نے اپنے خانساماں کے لیے سبز رنگ کی ٹوپی خریدنی تھی تاکہ کھانا پکاتے وقت وہ اسے سر پر پہن لیا کرے لیکن کچھ سمجھ نہیں آئی کہ یہ ٹوپی میڈیکل اسٹور سے ملے گی یا کریانے کی دکان سے؟ چلیں کبھی تجربہ کرکے دیکھ لیں‘ فرض کیا کہ آپ کو بلاوجہ ایک مقناطیس خریدنا ہے‘ کیا آپ کو علم ہے کہ مقناطیس خریدنا ہو تو کس دکان پر جانا چاہئے؟ کئی لوگ میری طرح نہیں جانتے کہ چولہے کے بٹن خراب ہوجائیں تو کہاں سے ملتے ہیں‘ دروازوں پر لگانے والی جالی کہاں دستیاب ہوتی ہے‘ اوون کی پلیٹ ٹوٹ جائے تو کہاں سے ملتی ہے ‘دیسی تالا کہاں فروخت ہوتا ہے‘ ویکیوم کلینر کا پائپ کہاں سے ملتا ہے‘ گھر کے مین ہول کا ڈھکن ٹوٹ جائے تو کہاں سے نیا خریدا جاتا ہے۔ گھاس کاٹنے والی مشین کہاں سے ملتی ہے‘ بنا بنایا تنور کہاں فروخت ہوتا ہے؟ تاہم ان دکانوں کے بارے میں وہ لوگ ضرور جانتے ہوں گے جو نوکر ہیں یا شوہر۔ ضرورتوں کی نوعیت بدل گئی ہے لیکن پرانی چیزیں اب بھی فروخت ہوتی ہیں کپڑے دھونے کے لئے واشنگ پائوڈر آج بھی اتنا فروخت نہیں ہوتا جتنا کپڑے دھونے والا صابن فروخت ہوتا ہے‘ اسی لیے تو فیکٹریاں چل رہی ہیں ۔ گڑ اور شکر کا استعمال شہروں میں بہت کم ہوتاہے لیکن کیا گڑ اور شکر بننا بند ہو گئی ہے؟ کبھی کسی دیہات یا قصبے کا چکر لگائیے‘ وہاں آپ کو ہر متروک چیز فروخت ہوتی ہوئی نظر آئے گی مثلاً کونڈی ڈنڈا‘ چھلنا‘ مدہانی‘ چارپائی کے رنگیلے پائے‘ مٹی کے گھڑے‘ مٹی کے برتن‘تندوری‘ پھونکنی‘ لوہے کے بکسے‘ رنگیلی پیڑھی‘ موڑھے‘ چھیکو‘ مچھر دانی!

جس طرح اکثر موسم بدلنے پر جب ہم بچوں کے پرانے کپڑے نکالتے ہیں تو ایک جملہ کم و بیش ہر طرف سے سننے کو ملتا ہے کہ ’کپڑے چھوٹے ہو گئے ہیں‘ حالانکہ کپڑے چھوٹے نہیں ہوتے، ہمارے بچے بڑے ہوگئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح دنیا ویسے کی ویسی چل رہی ہے ہم چونکہ آگے نکل آتے ہیں اس لیے ہمیں پیچھے کی چیزیں ماضی کا حصہ لگنے لگتی ہیں۔ آج بھی بارات پر نوٹ نچھاور کیے جاتے ہیں‘ گھروں میں لسی ’’رڑکی‘‘ جاتی ہے‘ مکھن نکالا جاتا ہے‘ ہینڈ پمپ سے بالٹیاں بھری جاتی ہیں‘ اُپلے لگائے اور جلائے جاتے ہیں‘ دہی جمایا جاتاہے‘ السی کی پنیاں بنائی جاتی ہیں‘ زردہ چاولوں پر چاندی کے ورق لگائے جاتے ہیں‘ دیگ کے میٹھے چاولوں کی ’’کھرچن‘‘ پسند کی جاتی ہے‘چوپڑی ہوئی روٹی کھائی جاتی ہے‘ مسی روٹی بنائی جاتی ہے‘ چھت کو مٹی کا لیپ کیا جاتاہے‘ گھروں میں روشندان بنائے جاتے ہیں‘ کنڈی والے دروازے پسند کیے جاتے ہیں‘لوہے کی الماریاں خریدی جاتی ہیں‘چائے پینے کے لیے پیالیاں خریدی جاتی ہیں۔ ہم تھوڑا آگے نکل آئے ہیں ورنہ ہر چیز وہیں موجود ہے … سوائے ہمارے!!!

تازہ ترین