• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض شخصیات ایسی بھی ہیں، جو بہ ظاہر تو اس جہانِ رنگ و بو سے رُخصت ہو جاتی ہیں، مگر اپنی حسین یادوں اور شان دار کارناموں کی بدولت لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتی ہیں اور کسی نہ کسی لمحے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس بھی دلاتی رہتی ہیں۔ منور ظریف بھی ایسے ہی دلوں پر راج کرنے والے فن کار تھے، جو اپنی ادکاری کے انمٹ نقوش کے باعث آج بھی لاکھوں دلوں کی دھڑکن میں موجود ہیں۔ 

انہوں نے محتاط انداز ے کے مطابق لگ بھگ تین سو فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 25دسمبر1940ء کو تاریخی شہر لاہور کے گنجان آباد علاقے گجر سنگھ میں جنم لینے والے نامور مزاحیہ اداکار29 اپریل1976ء کو اس فانی دُنیا سے رُخصت ہوئے۔ صرف 36 برس کی عمر میں وہ اتنا شان دار کام کر گئے کہ جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔منور ظریف کی فنی صلاحیتوں اور بے ساختہ اداکاری سے آراستہ تین فلمیں ’’رنگیلا اور منور ظریف‘‘ ، ’’پیار کا موسم‘‘ اور ’’زینت‘‘ ایسی فلمیں ہیں، جنہیں زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ نذر آرٹ پروڈکشنز کے بینر تلے عکس بند ہونے والی فلم ساز شباب کیرانوی، ہدایت کار نذر شباب، موسیقار ایم اشرف، نغمہ نگار سرور انور، کہانی نویس رشید ساجد اور عکاسی ریاضی کی مزاحیہ فلم ’’رنگیلا اور منور ظریف‘‘ کو یہ خصوصیت حامل ہوئی کہ پاکستان کی اب تک کی فلمی تاریخ کی واحد فلم ہے، جس کا نام دو نامور مزاحیہ اداکاروں کے نام پر رکھا گیا۔ 

رنگیلا اور منور ظریف کے ہمراہ فلم میں صاعقہ اور شائستہ قیصر بالترتیب ان دونوں کے مقابل ہیروئن آئیں، کاسٹ میں دیگر فن کار اورنگ زیب، ممتاز، نذر، آشا پوسلے، ساقی، آغا دلراج، چکرم نیناں، نجمہ محبوب، اسلم پرویز اور مہمان اداکار علائو الدین، ناصرہ اور صابرہ سلطانہ شامل تھے۔ 

یہ فلم لاہور پنجاب سرکٹ میں 30نومبر1973ء کو ریلیز ہوئی، جب کہ کراچی سندھ سرکٹ میں یہ مزاح اور تفریحی سے بھر پُور نغماتی فلم 5جنوری1974ء کو عیدالاضحی کے موقع پر کراچی کے سابقہ مرکزی سینما پیراڈائز سمیت مضافات کے گیارہ اسکرینز کی زینت بنی۔ پیراڈائز پر پُورے دس ہفتے یہ فلم خاص و عام کی توجہ بنی رہی اور مجموعی طور پر شان دار سلور جوبلی کے ساتھ 37 ہفتے یہ زیر نمائش رہی۔ 

پورے ملک میں اس فلم کا باکس آفس بزنس بہت شان دار رہا۔ رنگیلا اور منور ظریف کی لچھے دار کامیڈی نے شائقین کے دل موہ لیے تھے۔ منور ظریف نے اس فلم کی کہانی کے تناظر میں ایک ڈبل رول خان بہادر اشتیاق علی کا عمدہ طریقے سے نبھایا۔ باقی پوری فلم میں اُن کے کردار کا نام منور ظریف ہوتا ہے۔ اس فلم نے یہ بات ثابت کی کہ ان کے ناموں پر فلمیں چلتی تھیں۔ 

دو فلموں ایمان دار اور بے ایمان کی کہانیوں کا حصہ پہلے منور ظریف نہیں تھے۔ بعد میں ان کی ڈیمانڈ محسوس کی گئی اور وہ ان دونوں فلموں کا حصہ بنے۔ فلم رنگیلا اور منور ظریف کے ایک سیکوئنس میں منور ظریف نے خاتون کا گیٹ اَپ نہایت مہارت سے اختیار کیا اور بے پناہ داد حاصل کی۔ 

اس فلم کے یُوں تو سارے نغمات اچھے تھے، لیکن جن نغمات نے زیادہ دُھوم مچائی وہ یہ تھے۔ کیسا جادو کر دیا مستانی آنکھوں والے نے (نورجہاں) ٭۔کھڑکی سے دروازوں سے چلمن سے چوباروں سے جھانکا نہ کرو ہم کو (احمدرشدی)۔ فلم ’’پیار کا موسم‘‘ الجھن پروڈکشنز کے بشیر احمد عرفان نے پروڈیوس کی۔ ہدایت کار منور رشید، موسیقار تصدق حسین، نغمہ نگار موج لکھنؤی، عکاس اظہر برکی اور کہانی نویس اقبال رضوی کی یہ تفریحی نغماتی فلم چار اپریل 1975ء کو آل پاکستان ریلیز ہوئی اور واحد اُردو فلم تھی۔ جو دیگر تین پنجابی فلموں کے ساتھ سینما اسکرینز کی زینت بنی۔ 

اس فلم کے ایک کلاسیک گیت ’’مورے پنگھٹ پہ نندلعل چھیڑ گیؤرے ‘‘ پر منور ظریف نے نہایت نیرت بھائو کے ساتھ جو رقص کیا، وہ بھی دیکھنے کے قابل تھا۔ ’’زینت‘‘، منور ظرف کی ایک غیر معمولی فلم تھی،جس میں کہانی کے ساتھ ساتھ موسیقی بھی بہت شاندار رہی۔ ٭۔رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے (مہدی حسن) ٭۔موہے پنگھٹ پہ نندلعل چھیڑ گیؤرے(مہدی حسن) ٭۔دیکھو دیکھو صنم بے ایمان ہو گیا(ناہید اختر) ٭۔میری گڑیا لاڈلی، کلیوں سے ہے پیاری (مہدی حسن) ٭۔تیری قسم تیرے سر کی قسم (مہناز/رجب علی)٭۔بنّے کے گھر سے مہندی رچانے کوئی آگیا (نور جہاں و کورس)۔

’’زینت‘‘ کراچی کے مرکزی سینما، بمبینو سمیت مضافات کے18 سینمائوں کی زینت بنی۔ بمبینو پہ اس ’’زینت‘‘ کو شائقین فلم نے دس ہفتوں پذیرائی بخشی اور 51 ہفتوں کے ساتھ شان دار گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ فلم میں لہری اور منور ظریف کے علاوہ ممتاز، ننھا، حافظ جلیل افغانی، نازلی، عشرت چوہدری، قوی خان، خالد نظامی، عجاز اختر، نجمہ محبوب، مینا چوہدری شامل تھیں۔ موسیقار اس تفریحی فلم کے نغمات کی دُھنیں بہت عمدہ بنائیں۔ 

بعض نغمات اسٹریٹ ہٹ ثابت ہوئے، جن میں٭۔دل سنبھل اب چل نکل تو اس جہاں سے (مسعود رانا و کورس) ٭۔دیکھا جو حسنِ یار طبیعت مچل گئی (مسعود رانا)٭۔گوری کی ادائوں سے پیار جھلکے (مسعود رانا/ احمدرشدی) ٭۔حسن کا جلوہ عام ہے، زلف جو بکھرے شام ہے (نورجہاں)

٭۔پیار کا موسم دل کو جلائے (مسعود رانا، مالا، تانی، ناہید نیازی)۔’’پیار کا موسم‘‘ کراچی کے ناز سینما سمیت مضافات کے19 اسکرینز پر ریلیز ہوئی اور اس کے ڈسٹری بیوٹرز ’’گرین پکچرز‘‘ والے تھے۔ ناز سنیما پر یہ فلم گیارہ ہفتے زیر نمائش رہی اور مجموعی طور پر کراچی میں اس نے شان دار سلور جوبلی کے ساتھ 37ہفتے مکمل کیے۔

سید سلیمان کی شان دار گولڈن جوبلی ہٹ فلم ’’زینت‘‘ میں منور ظریف، شوکت کے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرتے ہوئے ایسی زبردست کردار نگاری کا مظاہرہ کیا کہ سال1975ء کے بہترین مزاحیہ اداکار کا نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ ’’زینت‘‘ کی کہانی کا تھیم یہ تھا کہ ’’بیٹیاں زحمت نہیں، رحمت ہیں، اپنے اعلیٰ کردار سے زینت (شبنم) نے بیٹی سے نفرت کرنے والے اپنے دادا نواب حشمت علی خاں پر یہ بات ثابت کر کے دکھائی اور اس جدوجہد میں شبنم کے بھائی شوکت (منور ظریف) نے بہن کا بھرپور ساتھ دیا۔ 

کاشف لمیٹڈ کی یہ معاشرتی نغماتی فلم 30 مئی 1975ء کو آل پاکستان ریلیز ہوئی۔ فلم ساز ایم احمد شمسی، موسیقار ناشاد، نغمہ نگار تسلیم فاضلی، کہانی نویس، آغا حسن امتثال اور عکاس علی جان کی شاہ کار فلم تھیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین