(گزشتہ سے پیوستہ)
(iii) ''That no amendment shall be made in the salient features of the Constitution i.e. independence of Judiciary, federalism, parliamentary form of government blended with Islamic provisions.''
ترجمہ:آئین کی حقیقی روح (عدلیہ کی آزادی ، وفاقیت ، پارلیمانی طرزِ حکومت اور اسلامی دفعات ) کو مجروح کرنے والی کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی۔
(iv) ''That Fundamental Rights provided in Part II, Chapter 1 of the Constitution shall continue to hold the field.''
ترجمہ:آئین کے پارٹ 2،اورباب 1،میں فراہم کردہ بنیادی حقوق نافذ العمل رہیں گے۔
مندرجہ بالا فیصلے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جہاں تک آئینی ترمیم کاتعلق ہے، ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے میں کہا گیا کہ جنرل مشرف کوآئین میں ترمیم کا اختیار ہے، بشرطیکہ آئین میں کوئی ایسی شِق نہ ہو جو جنرل مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کے نفاذ میں رُکاوٹ بنے تاہم ایسی کوئی رُکاوٹ نہ تھی ، اس کے علاوہ آئین کی کسی شق میں ترمیم کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ مندرجہ بالا ترمیم کے لئے بھی بہت سی کڑی شرائط عائد کی گئیں، جن کا پورا کرنا ممکن نہ تھا ، جنرل مشرف کو ترمیم کا جواختیار دیا گیا، وہ محض نمائشی اختیار تھا۔صاف لفظوں میں آئین میں کسی ترمیم کی اجازت نہیں دی گئی ۔اس بے بنیاد الزام کا مفصل جواب بھی ’’ارشاد نامہ‘‘ کے باب ’’ آئین میں ترمیم کی اجازت کی حقیقت‘‘میں دیکھا جاسکتا ہے ۔میرے خلاف جتنی بھی تنقید ہو ئی وہ اس مفروضے کی بِنا پر ہوئی کہ میں نے جنرل پرویز مشرف کو ترمیم کرنے کا اختیار دیا ، جو حقیقت اور ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کے برعکس ہے۔ جنہوں نے بھی ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کی مخالفت کی،اُن سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے یہ فیصلہ دوبارہ پڑھ لیں۔
ریکارڈ درست رکھنے کے لئے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ لیگل فریم ورک آرڈر اُس وقت جاری ہوا جب میںچیف الیکشن کمشنر تھا۔ میری رائے میں لیگل فریم ورک آرڈر ظفرعلی شاہ کیس کے فیصلے سے متصادم تھا، میں ان ترامیم کا مخالف تھا۔ اس لئے میں نے بہ حیثیت چیف الیکشن کمشنر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کا حلف لینے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ میر ی بجائے الیکشن کمیشن کے دیگر ارکان نے ان سے حلف لیا لیکن پارلیمنٹ نے لیگل فریم ورک آرڈر کو چند تبدیلیوں کے ساتھ بذریعہ 17ویں آئینی ترمیم 31دسمبر 2003ء کو منظور کر لیا۔بہ طور چیف الیکشن کمشنر حکومت میرے فیصلوں سے ناخوش تھی ۔کئی بار فیصلہ ہوا کہ مجھے میرے عہدے سے فارغ کر دیا جائے،یا کم از کم میری تعیناتی تاحکم ثانی کر دی جائے،تاکہ مجھے کسی بھی وقت فارغ کیا جاسکے۔ ایک مرتبہ مجھے فارغ کرنے کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کر دیا گیاجس کے لئے گزٹ میں نوٹیفکیشن ضروری تھا، لیکن اٹارنی جنرل مخدوم علی خان نے حکومت کو مشورہ دیا کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ آئین بحال ہو چکا ہے اور آئین کی شق نمبر215کے تحت صر ف سپریم جوڈیشل کونسل ہی چیف الیکشن کمشنر کو اس کے عہدے سے فارغ کرنے کا حکم صادر کر سکتی ہے۔ارشاد نامہ کے مصنف کی حیثیت سے مجھے جو کچھ کہنا چاہئے تھا، مختصراً عرض کر دیا ہے۔ تفصیل کے لئے ارشادنامہ دیکھا جاسکتا ہے جو مارکیٹ میں آگیا ہے۔ یقینا سارے ابہام دور ہوجائیں گے۔عزت دینے والے ربِ ذوالجلال نے محبوب خلائق کے اعزاز سے سرفرازفرمایا ہے ، اس پرجس قدر شکر ادا کروں، کم ہے ۔