• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

۸ آیات پر مشتمل سورۃ التکاثر کے اہم مقاصد یہ ہیں کہ ہر شخص کو چاہئے کہ وہ دنیاوی زندگی اور اس کے وقتی آرام کو اپنا منزل مقصود نہ سمجھے، کیونکہ اس دنیاوی فانی زندگی کے بعد ایک ایسی زندگی شروع ہونے والی ہے، جہاں کبھی موت واقع نہیں ہوگی، جہاں کی راحت اور سکون کے بعد کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ 

قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر مسلمان کا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا، جب دنیا کا سارا نظام ہی درہم برہم ہوجائے گا، آسمان پھٹ جائے گا، سورج لپیٹ دیا جائے گا،ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا میں آنے والے تمام انس وجن کو اللہ کے دربار میں ایسی حالت میں حاضر کیا جائے گا کہ ہر نفس کو صرف اور صرف اپنی ذات کی فکر ہوگی کہ اس کا نامۂ اعمال کس ہاتھ میں دیا جائے گا؟

اس کے بعد انہیں دنیاوی زندگی کے اعمال کی جزا یا سزا دی جائے گی۔ اس دن کو ’’یوم القیامۃ ‘‘کہا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں اس دن کی سختی اور ہولناکی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔ قرآن کریم میں تقریباً ۷۰ جگہوں پر یوم القیامہ کا لفظ وارد ہوا ہے اور الیوم الآخر، ودار الآخرۃ جیسے الفاظ کا ذکر قرآن کریم میں بیسیوں مرتبہ ہوا ہے۔ 

نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ ایک دن دنیا اور دنیا کی ساری نقل وحرکت ختم ہوجائے گی اور انسان کے دنیاوی اعمال کے مطابق اللہ کے حکم پر جنت یا جہنم کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ دیگر قومیں بھی کسی نہ شکل میں قیامت کے دن کو تسلیم کرتی ہیں۔ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس پوری کائنات کے وجود کا کوئی اہم مقصد ضرور ہونا چاہئے اور اشرف المخلوقات کو اپنے کیے ہوئے اعمال کی جزا یا سزا ضرور ملنی چاہئے۔

قیامت کب واقع ہوگی؟ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، البتہ قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے ایک مرتبہ شہادت اور درمیان والی انگلی کو ملاکر ارشاد فرمایا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں ، بس سمجھیں کہ میں بھی قیامت کے ساتھ اس طرح بھیجا گیا ہوں۔ (صحیح مسلم) یعنی حضور اکرم ﷺ وقیامت کے درمیان کا وقت دنیا کے وجود سے لے کر حضور اکرم ﷺ کی بعثت تک گزرے ہوئے زمانے کے مقابلے میں بہت کم ہے اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نیز اس امت کے افراد کے عمریں بہت کم ہیں، لہٰذا ہمیں ہر وقت اس عظیم دن کی تیاری کرنی چاہئے۔ 

قیامت کے واقع ہونے کی تاریخ کا علم تو اللہ کے پاس ہے، ہاں جس شخص کی موت واقع ہوگئی ،اس کے لیے ایک طرح سے قیامت واقع ہوجاتی ہے، کیونکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ انسان کی جزا یا سزا قیامت تک مؤخر نہیں کی جاتی ، بلکہ موت کے بعد سے ہی دنیا میں کیے گئے اعمال کی جزا یا سزا شروع ہوجاتی ہے۔ چنانچہ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قبر جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنتی ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔

کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر عذاب قبر کا ذکر آیا ہے،یہاں صرف دو آیات پیش ہیں: فرعون کے لوگوں کو بدترین عذاب نے آگھیرا۔ آگ ہے جس کے سامنے انہیں صبح وشام پیش کیا جاتا ہے، اور جس دن قیامت آجائے گی، (اُس دن حکم ہوگا کہ) فرعون کے لوگوں کو سخت ترین عذاب میں داخل کردو۔ (سورۃ الغافر ۴۵۔۴۶) انسان کے مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے انسان کی روح جس عالم میں رہتی ہے اُسے عالم برزخ کہا جاتا ہے۔ اِس آیت میں بتایا گیا کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو عالم برزخ میں جہنم کے سامنے پیش کیا جاتاہے ،تاکہ انہیں پتا چلے کہ اُن کا ٹھکانہ یہ ہے۔ اسی طرح فرمان الٰہی ہے: اِن کو ہم دو مرتبہ سزا دیں گے، پھر اُنہیں زبردست عذاب کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ (سورۃ التوبہ ۱۰۱) اس آیت میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ زبردست عذاب یعنی جہنم سے قبل بھی انہیں سزا دی جائے گی ۔

قبرکے عذاب کے متعلق حضور اکرم ﷺ کے سیکڑوں فرمان احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اختصار کے پیش نظر صرف تین احادیث پیش ہیں: حضور اکرمﷺ کا جب دو قبروں پر سے گزر ہوا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہورہا ہے، اور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا۔ ایک تو اُن میں سے چغل خوری کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے بچنے میں احتیاط نہیں کرتا تھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ایک ہری ٹہنی منگائی اور اسے چیر کر دو کیا۔ ہر ایک کی قبر پر ایک ایک گاڑ دی اور فرمایا جب تک یہ ٹہنی خشک نہ ہو، امیدہے کہ ان کا عذاب ہلکا ہوجائے۔ (صحیح مسلم)

حضور اکرمﷺ نے فرمایا : اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ تم دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں قبر کا وہ عذاب سنادے جو میں سن رہا ہوں۔ اس کے بعد حضور اکرمﷺ نے صحابۂ کرام ؓکی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ (صحیح مسلم) نیز فرمان رسول ﷺ ہے: جب آدمی مرجاتا ہے تو صبح وشام اُسے اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے۔ اگر اہل جنت سے ہوتا ہے توجنت، اور اگر اہل جہنم سے ہوتا ہے تو بھڑکتی ہوئی آگ اُسے دکھائی جاتی ہے، اور کہا جاتا ہے کہ یہ وہ تیرا ٹھکانا ہے جہاں قیامت کے دن تجھے اٹھاکر پہنچادیا جائے گا۔ (صحیح مسلم )

نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قبر میں ہر شخص سے تین سوال کئے جاتے ہیں: ۱) تمہارا رب کون ہے؟ ۲) تمہارا مذہب کیا ہے؟ ۳)ٰ یہ شخص کون ہیں جو تمہارے درمیان رسول بناکر بھیجے گئے؟ تینوں سوال کے صحیح جواب دینے پر کامیابی کا فیصلہ ہوجاتا ہے اور قیامت تک کے لیے جنت کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ سوالات کے جواب نہ دینے پر اسے عذاب دیا جاتا ہے اور جہنم کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ 

قبرکا عذاب اصل میں روح کو ہوتا ہے۔ سوالات بھی حقیقت میں روح ہی سے ہوتے ہیں، اس لیے اگر کسی شخص کو دفن نہ کیا جائے، تب بھی تینوں سوالات ہوتے ہیں، البتہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روح کے ساتھ بدن کو بھی عذاب ہوتا ہے۔ بے شمار دنیاوی چیزیں نہ سمجھنے کے باوجود ہم اُنہیں تسلیم کرتے ہیں، اسی طرح عالم برزخ میں عذاب اور آرام پر ہمیں مکمل ایمان لانا چاہئے خواہ اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہ ہو۔

جس طرح عالم برزخ کی زندگی اور اس میں عذاب یا انتہائی آرام وسکون پر ہمارا ایمان ہے اسی طرح ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیک بندوں کے لیے اپنا مہمان خانہ جنت تیار کر رکھا ہے جہاں آرام وآرائش کا ایسا سامان اللہ تعالیٰ نے مہیا کر رکھا ہے کہ کوئی بشر اسے سوچ بھی نہیں سکتا۔ دوسری طرف کافروں اور گناہ گاروں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ کی شکل میں جہنم ہے ،جہاں پیپ اور بہتا ہوا خون غذا کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جہنم سے نجات اور بغیر حساب وکتاب کے جنت الفردوس کا فیصلہ فرمائے۔ (آمین)

حقیقی دانش مند کون …؟

 حضرت ابو یعلیٰ شدّاد بن اوس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’دانش مند ہے وہ شخص جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے تیاری کرتا رہے اور نادان ہے وہ شخص جونفسانی خواہشات کی پیروی میں لگا رہے اور اللہ تعالیٰ سے لمبی لمبی آرزوئیں باندھتا رہے۔ (جامع ترمذی)اس حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے دانش مند اور نادان میں فرق واضح فرمادیاکہ حقیقی دانش مند انسان وہ ہے جو دنیا میں لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے ،اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرتے ہوئے ،نفس کو قابو میں رکھے،گناہوں سے باز رہے،ہر قسم کی نافرمانی سے بچتا رہے،اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے ڈرتا رہے اوراپنی موت اور آخرت کی جواب دہی کو ہر وقت یاد رکھے۔

تازہ ترین