
ہے کہ آخر اب سعودی عرب نے پاکستان کو دیئے گئے پیسوں میں سے ایک ارب ڈالر فوری طور پر وصول کیوں کرلئے اور اب باقی ماندہ کا بھی تقاضا کررہا ہے، اب یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان پر ’’خاص‘‘ مہربانی اس لئے کی تھی کہ وہ انڈیا کی اگست 2019ء والی سازش پر خاموشی اختیار کرے کیونکہ انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کی پینگیں بہت زیادہ بڑھ چکی تھیں اور دونوں کے معاشی مفادات ایک ہوچکے تھے۔ انڈیا نے کشمیر کے حوالے سے نہ صرف امریکہ اور سعودی عرب بلکہ دوسرے قابل ذکر ممالک کو بھی پہلے ہی بریف کر رکھا تھا تاکہ عالمی سطح پر زیادہ شور شرابا نہ ہو۔ سو اس میں بھی وہ ’’مسلم امہ‘‘ اور امریکہ کی ’’مہربانیوں‘‘ کی وجہ سے کامیاب رہا۔ اب یہ بات بھی سمجھ میں آرہی ہے کہ امریکی صدر نے وزیراعظم عمران خان کو اپنا ’’دوست‘‘ کیوں قرار دیا اور انڈیا کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کیوں کی؟ سب کچھ طے شدہ تھا۔ پہلے مقبوضہ کشمیر کو ’’ٹھکانے‘‘ لگانا مقصود تھا اور اب بعد میں ’’مسلم امہ‘‘ سے اسرائیل کو تسلیم کرانے کی سازش کی گئی تھی۔ دونوں کام کردیئے گئے۔ امریکہ نے نہ صرف پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے خود دبائو ڈالا بلکہ سعودی عرب کو بھی اس مقصد کے لئے استعمال کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ جب پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے دونوں ملکوں کے دبائو کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو پھر وزیراعظم عمران خان کی ’’دوستی‘‘ صدر ٹرمپ کے ساتھ رہی نہ پرنس سلیمان کے ساتھ، چنانچہ اب سنا یہ گیا ہے کہ سعودی عرب اپنی باقی رقم کا بھی تقاضہ کررہا ہے اور اس مقصد کے لئے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو چین کی جانب دیکھنا پڑ رہا ہے اگرچہ امریکہ اب تک بحرین، متحدہ عرب امارات اور سوڈان سے اسرائیل کو تسلیم کراچکا ہے۔ تاہم وہ چاہتا ہے کہ سعودی عرب بھی فوری طور پر یہ کام کردے تاکہ امریکہ، اسرائیل اور انڈیا کا ایجنڈا مکمل ہوسکے۔ اسی مقصد کے تحت گزشتہ اتوار کو سعودی عرب میں امریکی وزیر خارجہ، سعودی شہزادہ سلیمان اور غالباً اسرائیلی وزیراعظم کی ملاقات بھی ہوئی۔ اگرچہ شہزادہ سلیمان نے اس ملاقات کی تردید کی ہے تاہم عالمی مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ وگر نہ عالمی میڈیا اتنا غافل بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ اس ملاقات کی تصدیق کچھ عرصہ بعد ہوجائے اور امریکی صدر ٹرمپ جانے سے پہلے پہلے سعودی عرب سے کوئی اعلان بھی کرا دیں تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ ’’مسلم امہ‘‘ کہاں ہے۔ اگرچہ انڈیا، اسرائیل اور سعودی عرب ایک ہوجائیں گے تو پھر کشمیر اور فلسطین کے مسئلوں کا کیا بنے گا۔