تھر کی تحصیل ڈیپلو کے گائوں کھینروئی میں21روز قبل قتل کی گئی22سالہ شادی شدہ خاتون گیتا سوٹہر کی پھندا لگی ہوئی لاش گھر سے ہی برآمد ہوئی تھی جسے خودکشی قرار دیا گیا۔ مگر والدین نے اس کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ خودکشی نہیں ہے۔واقعہ کے بعد پولیس نے بھی روایتی طور معا ملہ کو رفع دفع کرتے ہوئے سسرالیوں کے موقف کی تائید کی اور مقدمہ درج نہیں کیا گیا ۔واضح رہے کہ تھر میں خودکشی کے ہر واقعہ کو دماغی توازن درست نہ ہونا لکھ کر کارروائی ختم کر دی جاتی ہے ۔
بالآخر فوتن کے والدین کی جانب سے احتجاج کیا گیا کہ یہ خودکشی نہیں ہے بلکہ قتل ہے کیونکہ ہماری لڑکی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے مطالبہ کیا کہ واقعہ کی انکوائری کی جائے۔والدین کے اصرار اور آئی جی سندھ پولیس کے نوٹس لینے کے بعد فوتی خاتون کے بھائی چھگن لال کی مدعیت میں سسر سورتو مل،ڈیور موہن لال،اورگائوں کے دیگر دو افراد پر ڈیپلو پولیس اسٹیشن پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔مگر پولیس کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی اور نتیجے میں گزرتے وقت کے ساتھ مدعی کے مایوس ہونے کے ساتھ فیصلے کے لیے پنچائت کے دبائو میں آنا شروع ہوگئے۔جب سسرالیوں کو پتہ چلا کہ اب معاملے کو دبایا نہیں جا سکتا ہے تو وہ دو سے تین مرتبہ خاتون کے والدین کے پاس منت سماجت کے لیے وفد کی صورت میں گئے کہ اب ہمیں بخش دو ۔
یوں مدعی دوگنے پریشر میں آگئے ایک طرف برادری کے لوگوں کا دبائو تو دوسری جانب پولیس کی عدم توجہی نے بھی بے حد مایوس کر دیاتھا۔کہا جاتا ہے کہ ایسے مقدمات میں اکثر پولیس مبینہ لین دین کے عیوض مجرموں کا ساتھ دیتی ہے اورانہیں ڈھیل دی جاتی ہے تاکہ جرگہ کی راہیں ہموار ہو سکیں ۔اگر اس مقدمہ میں پولیس ،کیس میں مطلوبہ افراد کو گرفتار کر کے سخت پوچھ گچھ کرتی تو یقیناًمعاملہ کھل کر سامنے آسکتا تھا کہ یہ قتل کس طرح ہوا اور اسباب کیا تھے۔
مگر سماجی بے حسی اور انتظامی ناہلی نے اس کیس کو نا انصافی کی چادر اوڑھ کر بے قصور مقتولہ کی طرح ہی دفنا دیا۔بالآخر22 نومبر کی شب ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی میں سوٹہڑبرادی سے تعلق رکھنے والے سابق ضلع کونسلر رنجیت سنگھ کی رہائش پر ان کی سرپنچ میں جرگہ منعقد کیا گیا ۔جس میں سوٹہڑ برادری کے افراد سمیت ٹھاکر برادری کے امر سنگھ نے شرکت کی ۔جرگہ میں فوتی لڑکی کے سسر سورتومل نے جرم کا اعتراف کیا اور معافی مانگی جس پر جرگائی پنچایت اور سرپنچ نے ان پر 15لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا ۔سوشل میڈیا پر جرگہ کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں جرم کا اعتراف کرنے والے سسر سے جوتا منہ میں پکڑ کر معافی بھی منگوائی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق جرم کا اعتراف کرنے والوں نے خاتون کے موت کے بعد لٹکانے کا بھی اعتراف کیا جس پر فوتن کے بھائی پھر سے فیصلہ قبول کرنے سے انکاری ہو گئے مگر وہاں کثیر تعداد میں موجود پنچائتیوںنے منت سماجت کرکے فیصلہ پر آمادہ کیا۔سسرالیوں کا کہنا تھا کہ عدالت میں چکر کاٹنے پڑیں گے اس لیئے ہمیں معاف کیا جائے ۔
فیصلے کے مطابق خون بہا کی رقم ایک ماہ بعد ورثاء کو دی جائےگی۔ایسے فیصلے کے بعدجرگے مین شامل مہاڈو سوٹہڑ نے فوتی خاتون کی والدہ ،والد بھور اور مدعی بھائی چھگن کو ساتھ لے کر ڈیپلو تھانہ پر جا کر راضی نامہ کے بیانات جمع کروائے ۔جس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے غلط فہمی کی بنیاد پر مقدمہ درج کروایا تھا ،اور اب ہمارا راضی نامہ ہو گیا ہے۔مقتولہ کے چچا محبتو نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ برادری کے معززین اور امر سنگھ ٹھاکر کے کہنے پر ہم نے خون معاف کر دیا۔
اس ضمن میں رابطہ کرنے پر پولیس اسٹیشن ڈیپلو کے ایس ایچ او مبارک راجڑ نے بتایا کہ فریقین میں صلح کی اطلاع ہمیں فون پر ملی ہے،مگر ہم قانونی تفتیش جاری رکھیں گے اور رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جائے گی۔
دریں اثناء تھر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی میں یہ قتل کا یک انوکھا جرگہ تھا جس میں سرعام عدالت لگا کر ایک خاتون کے قتل کی قیمت لگائی گئی۔جنگ کی جانب رابطہ کرنے پر قانونی ماہر اور مٹھی بار کے جنرل سیکریٹری ایڈوکیٹ مصطفی ھنگورجو نے تھر ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جرگوں کے متعلق عدالتی احکامات واضح ہیں کہ کسی بھی علاقے میں جرگہ ہوگا وہاں کے پولیس عملداران کے خلاف کاروائی کی جائے گی اور یہ عمل سراسر قانون کے منافی ہوا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ خلاف غیر قانونی ہونے والے جرگوں کے خلاف انتظامی ایکشن لیا جائے اور بالاحکام کی جانب سے پولیس کو واضح ہدایات جاری کی جائیں تاکہ پر امن خطہ صحرائے تھرغیر قانونی جرگوں کی روایت سے محفوظ رہ سکے۔