مجھے سردی کی وہ تمام صبحیں یاد ہیں جب لوگ آرام کررہے ہوتے اور شہباز شریف زیر تعمیر منصوبوں کا جائزہ لینے میں مصروف ہوتے۔ صبح سویرے دورے کرنے کی دو وجوہات تھیں؛ ایک تو شہباز شریف صبح کے وقت اٹھ کر کام کرنے کے قائل تھے اور دوسرا وہ چاہتے تھے کہ دن کے وقت اگر وہ دوروں پر نکلیں گے تو عوام کو ان کے پروٹوکول کی وجہ سے زحمت نہیں ہوگی۔ صبح سے لیکر رات تک جہاں پر ہم جیسے نوجوان تھک جاتے تھے وہاں انہیں کبھی تھکتے نہیں دیکھا تھا۔ محنتی افسر ان کے ساتھ کام کر کے سیکھتے تھے جبکہ کام چور افسر ان کے ساتھ کام کرنے سے گھبراتے تھے اور جلد تبادلہ کروا لیا کرتے تھے۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد جب شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کی خبر بیوروکریسی تک پہنچی تو کئی افسروں نے وزیر اعظم ہاوٗس سے اپنا تبادلہ کروا لیا تھا۔ کئی سال صبح جلدی اٹھ کر فائلیں دیکھنا، پھر میٹنگز میں شریک ہونا، مختلف جگہوں پر اچانک چھاپے مارنا اور دورے کرنا اور صوبے کے انتظامی معاملات کو شہباز شریف نے دس سال اس طرح چلایا کہ صوبہ پنجاب کو باقی تمام صوبوں کے مقابلے میں بے تحاشہ ترقی دلا دی۔ اپنے تو اپنے ناقدین بھی اس بات کو ماننے پر مجبور تھے۔ پنجاب ہی نہیں بلکہ پاکستان بھر کی عوام آج بھی اس قوم کے خادم پر فخر کرتے ہیں۔شہباز شریف صاحب کے ساتھ جیل میں ملاقات کی اجازت نہیں ہے، صرف خاندان کے لوگ ملتے ہیں۔ میاں شہباز صاحب کی والدہ کی وفات کے روز خصوصی اجازت ملی تو میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ وہ سخت گیر منتظم نہیں جس کو میں جانتا ہوں۔ وہ شخص جس کو جیل کی سختی نہ توڑ سکی، جس کو کمر درد کے باوجود ڈاکٹر کی سہولت سے محروم رکھا گیا۔ ہسپتال میں ایمبولینس کی بجائے بکتر بند گاڑی میں لایا گیا اور اس نے ایک بار بھی شکوہ نہیں کیا۔ قوم کے اس خدمت گار نے جب اپنی والدہ کی وفات کی خبر سنی‘ وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ پایا۔ بچوں کی طرح آبدیدہ ہوگیا۔ مجھے وہ ایک سخت گیر شہباز شریف نہیں بلکہ ایک معصوم بچہ نظر آیا۔
لوگ شہباز شریف کے بارے میں سوچتے ہیں کہ وہ سخت گیر آدمی ہیں ، غلط بھی نہیں ہے۔ ان کی شخصیت کا سخت پن تب سامنے آتا تھا جب کوئی افسر یا رکن اسمبلی اپنے کام میں غفلت کرتا ہوا پایا گیا، کبھی ہسپتالوں کے دوروں کے دوران اگر کوئی بتاتا کہ ہسپتال کا عملہ یا ڈاکٹر غفلت برت رہا ہے تو وہ انتہائی غصہ میں آجاتے تھے...جیل میں حالات یہ ہیں کہ اپنے بیٹے حمزہ سے بھی ایک ہفتہ بعد ملاقات کروائی جاتی ہے، ماں گزر چکی ہو اور آپ قید تنہائی کاٹ رہے ہوں ۔شاید میں یا آپ اس کو محسوس بھی نہ کر سکیں کہ کیا غم گزر رہا ہو گا اس شخص پر؟ تین بار کا وزیراعلیٰ وزارتِ عظمی کو جس نے کئی بار ٹھکرایا ہو۔ دنیا جس کی محنت کی قائل ہو۔جیل میں جن حالات میں قید کاٹ رہا ہے، وہ قابل بیاں نہیں ہیں۔
پھر سوچتا ہوں ہم نے ہمیشہ اپنے رہنمائوں کے ساتھ یہی سلوک تو کیا ہے۔ قائد سے لے کر آج تک وہ رسم ابھی تک جاری ہے۔ معلوم نہیں آگے کیا ہو گا لیکن آئندہ جب بھی کوئی اس ملک کی خدمت کر رہا ہو گا یا اس ملک و قوم کے لئے کچھ اچھا کر رہا ہو گا تو میں خود اس کو جا کر سمجھائوں گا کہ ایسا نہ کرے، اس قوم کی، اس ملک کی روایت رہی ہے کہ یہ اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہے بلکہ غدار ثابت کر دیتی ہے، ہم ایک احسان فراموش قوم ہیں۔ ہم پر جو لوگ آج مسلط ہیں، ہم اسی قابل ہیں...کاش شہباز شریف نے اپنے اس دوست کا مشورہ مان لیا ہوتا جس نے کہا تھا کہ پاکستان واپس نہ جائو‘ برطانیہ میں رہو، صبح اٹھو،اخبار پڑھو، کافی پیو، کبھی شکار پر دوستوں کے ساتھ چلے گئے، کبھی لندن کی سیر کو نکل پڑے اور آرام سے زندگی گزارو لیکن عوام کو کورونا جیسی وبا میں پریشان دیکھ کر وطن واپسی کا فیصلہ کیا...میاں شہباز شریف نے دن رات اس قوم کے لئے کام نہ کیا ہوتا اور آرام سے اقتدار کے مزے لیے ہوتے تو شاید ان کے یہ حالات نہ ہوتے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)