ایسا لگتا ہے کہ حکومت پر پی ڈی ایم تحریک کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں، یہ تاثر اِس لئے بطور خاص پیدا ہورہا ہے کہ حکومت نے پی ڈی ایم کے جلسوں کو سختی سے روکنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اِس سلسلے میں بعض گرفتاریاں بتاتی ہیں کہ شاید فائنل رائونڈ سے قبل ہی حکومت اور پی ڈیم ایم کے مابین دمادم مست قلند ر ہونے لگا ہے۔ اس محاذ آرائی کی شدت وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کے اس دوٹوک اعلان سے بھی عیاں ہو چکی ہے جس میں انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا ’’اپوزیشن کے جلسے روکنے کے لئے اب زیادہ پابندی لگائیں گے اور جلسے کے منتظمین اور سیاسی قائدین کے خلاف مقدمات درج کریں گے‘‘۔ اپوزیشن کا جواب وہی ہے جو پشاور جلسے سے قبل تھا کہ ہم ہر صورت شیڈو ل کے مطابق جلسے اور احتجاج جاری رکھیں گے۔ تاریخ یہ ہے کہ برسراقتدار حکومتوں کی جانب سے ہر دور میں اپوزیشن تحریکوں کو روکنے کیلئے مختلف حربے استعمال میں لائے جاتے رہے ہیں، مسلم لیگ کا گزشتہ دور اس حوالے سے استثنیٰ رکھتاہے کہ اس نے 2014میں تحریک انصاف کے اسلام آباد میں طویل ترین 126دن کے دھرنے میں روایتی روڑے اٹکانے سے اجتناب کیا، بعدازاں دسمبر 2014ءمیں آرمی پبلک اسکول پر سفاکانہ حملے کے بعد عمران خان نے دھرنا ختم کرنے کا ازخود اعلان کیا۔ اب منظر نامہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی قسمت یا پی ڈی ایم تحریک کا خوف کہ وہ کورونا جس نے کوئی چار ماہ قبل اچانک یوٹرن لے لیا تھا، اُس کی دوبارہ آمدکے اعلانات چہاردام ہیں۔
ہم نے اِس سلسلےمیں اپنے متعدد کالموں میں جہاں کورونا متاثرین کی شکایات کا ذکر کیا تھا، علاج معالجہ کے طریقہ کار،سہولتوں کے فقدان، اسپتالوں میں اپنائے گئے نامناسب طرزِ عمل پر سوالات اُٹھائے تھے وہاں کورونا کے اچانک خاتمے پر اسے معجزہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان معجزوں کی سرزمین ہے، اس کے قیام سے لیکر تادم ہم عمل سے زیادہ معجزوں اور خوابوں میں بشارتوں پر ہی جی رہے ہیں۔ شاہد یہ ایسے ہی خوابوں کا کرشمہ ہے کہ جہاں ترقی یافتہ ممالک سمیت ترقی پذیر ممالک میں بھی وہاں کے عوام نے کورونا کےدوران اپنی صحت کے نظام کو شافی پایا، تواُس کے قطعی برعکس پاکستان میں کورونا کے دوران اسپتالوں میں مریض بے یارو مددگار نظر آئے۔ خیر رات گئی اور بات گئی کے مصداق یہ سابقہ کورونا کا ذکر تھا۔ کیا کیا جائے کہ جس طرح پچھلی مرتبہ کورونا کے حوالے سے عوام یکسو نہ تھے، اسی طرح حال میں بھی ریب و تشکیک کے بادل اُفق پر نمایاں ہیں۔ حکمرانوں کو کچھ وقت ملے تو وہ اُس پر غور فرما لیں کہ آخرکیا وجہ ہے کہ حکمران جو بھی بات کرتے ہیں، عوام اُسے من وعن دوسرے ممالک کی طرح قبول کیوں نہیں کرتے اور پاکستانی حکمرانوں کے قو ل و فعل کے تناظر میں عوام تذبذب میں کیوں مبتلا رہتے ہیں؟ اب ان دنوں اسی تناظر میں بعض حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم تحریک کے بڑھتے قدم روکنے کیلئے کورونا کو بطور سیاسی ہتھکنڈہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان تمام باتوں سے قطع نظرمسلم لیگ کو جو امتحان درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ کیا ملتان اور لاہور کے جلسوں میں وہ اُسی طرح استقامت کا مظاہرہ کر پائے گی جس طرح پشاور کے جلسے میں اے این پی اور جے یو آئی نے کیا؟ اگرجلسے نہ بھی ہوسکے توکیا لیگی عہدیدار و کارکن گرفتاریوں و احتجاجی عمل سے کوئی ایسا نقشہ مرتب کرنےمیں کامیاب ہو سکیں گے جس کی وجہ سے جلسےسےبھی زیادہ ملکی عوام کے علاوہ دنیا تک اس تحریک کا پیغام پہنچ سکے!آپ جانتےہیں کہفعال تنظیمیں ایسی پابندیوں کی صورت میں اپنی قربانیوں کے طفیل ایک دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہیں۔ پشاور جلسے کے حوالے سے حکومت کے عزائم یوں بھی زیادہ خطرناک تھےکہ پختونخوا ہی تحریک انصاف کا پشتی بان رہا ہے لیکن حکومت چونکہ جانتی تھی کہ ملک میں دو ہی جماعتیں لاجواب تنظیمی ساخت کی وجہ سے معروف ہیں، ان میں ایک جماعت اسلامی تو پی ڈی ایم کا حصہ نہیں مگر دوسری اے این پی، پی ڈی ایم کا توانا بازو ہے۔ مزیدبراں مدرسوں کے طالب علموں کی ایک متحرک فورس رکھنے والی جے یو آئی بھی پشاور کے جلسے میں ایسی کسی پابندی کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں،چنانچہ ان حقائق کی روشنی میں حکومت نے محاذ آرائی میں شدت پیدا ہونے کے خوف سے پشاور کے جلسے کو بہ زور روکنے سے احتراز کیا۔ اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ اس وقت مسلم لیگ ہی سیاسی اُفق کا روشن استعارہ ہے لیکن اس کی وجہ میاں صاحب اور مریم صاحبہ کا موقف ہے، مسلم لیگی تنظیم نہیں۔ اِس لئے دیکھنا یہ ہوگا کہ میاں نواز شریف کے حامی عوام و کارکن اُنکے موقف کی خاطر کس حد تک قربانی دینے کیلئے تیار ہیں؟