1969ء میں پاکستان سینما میں ’’زرقا‘‘ کی صورت میں ایک نیا تجربہ کیاگیا۔ مسلم دُنیا کے سلگتے ہوئے مسئلہ فلسطین کو موضوع بناکر فلم ساز ہدایت کار مصنف ریاض شاہد نے ایک انقلابی فلم بنائی، جس نے باکس آفس پر شاندار کام یابی حاصل کی ۔ جمعہ 17 اکتوبر 1969ء کو پورے پاکستان میں یہ بین الاقوامی معیارکی فلم سینمائوں کی زینت بنی۔کراچی کے اوڈین سینما پراس فلم نے اپنی نمائش کے 102 ہفتے چل کر پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم کا اعزاز اپنےنام کیا۔
زرقا کی کہانی بیت المقدس کے خلاف ہونے والی اُس سازش سے پردہ اٹھاتی ہے، جب فلسطینی مسلمانوں کے لہو کو انگریز قوم نے شراب کے عوض یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کیا، جن کا نہ کوئی وطن تھا نہ کوئی زمین تھی۔ اس فلم کا استقبال پاکستانی فلم بینوں نے اس شان و شوکت سے کیا، جو اس سے قبل کسی اورپاکستانی فلم کو نصیب نہ ہوا۔ پہلی بار پاکستانی سینما پر اس فلم کی صورت میں ایک نیا اورچونکا دینےوالا تجربہ کیا گیا، جس کا تعلق بالواسطہ دنیا سے تھا اوربلاواسطہ پاکستانی عوام سے تھا۔
زرقا کے نغمات عام فلم سے بالکل مختلف تھے، ان نغمات کی شاعری میں فلم کی کہانی کے موضوع کوسامنے رکھا گیاتھا۔ مثلاً فلم کا تھیم سونگ ؎’’ہمیں یقین ہے ڈھلے گی اک دن ستم کی یہ شام اے فلسطین‘‘اس انقلابی گیت کے فلسطین میں ہونے والے مظالم کو نہایت جرأت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ فلم کے ایک اور گیت میں اس مصرع پر غورکریں؎، اے وطن تیری بربادی پرچپ کیوں کر رہوں، لٹ چکاہے جو چمن اس کو چمن کیسے کہوں، ؎ قبلہ اوّل نصرانیوں کے قبضے میںچلے جانے کا المیہ نہایت پُر تاثیر اندازمیں اس گیت کی فریاد میں سنائی دیتاہے۔
مسلم قوم کی یکجہتی اور اتحاد میں اس فلم کے نغمات میں ملتاہے۔ موسیقار رشید عطرے کو عربی دُھنوں پرجو کمپوزیشن بنانے کاکمال تھا، وہ بہت ہی کم موسیقار کے یہاں ملتا ہے، جس وقت اس فلم کا آغاز ہوا تو وہ حیات تھے۔ فلم کے تین گیت کمپوز کرنےکے بعد اُن کا انتقال ہوگیا۔ ان کے بعد فرزند وجاہت عطرے نے بقیہ گانوں کی دُھنیں مرتب کیں۔ فلم کے گانوں پر جن گلوکار نے پلے بیک دیا، اُن میں نسیم بیگم، منیرحسین، مہدی حسن،اداکار ساقی اور اداکارہ نیلو کے نام شامل ہیں،جب کہ نغمہ نگاری کے شعبےمیں ریاض شاہد ، سلطان محمود، آشفتہ، خواجہ پرویز ا ور حبیب جالب کے نام نمایاں تھے۔
اس تاریخ سازفلم میں اداکاری کے شعبے میں فلم کا ٹائٹل رول کرنے والی اداکارہ ’’نیلو‘‘ کانام سرفہرست تھا۔اداکارہ نیلو،ریاض شاہد کی بیگم بننے سے پہلے عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھیں، ان کا نام پروین تھا۔ ریاض شاہد کی بیگم بننے کے بعد وہ عابدہ ریاض کہلائیں۔ زرقا کاکردار اداکارہ نیلو کے فلمی کیریئر کاوہ لازوال کردار تھا،جس پر وہ فخر کرسکتی ہیں اور آج تک پاکستان کی فلمی صنعت نیلو کے اس کردار پرفخر کرتی ہے، جس نے اس صنعت پر پوری مسلم دنیا میں اس فلم کے ذریعے متعارف کروایا۔اداکار اعجاز نے اس فلم میں نیلو کے ہیرو کا کردار نبھایا۔
عرب مجاہد عمار کایہ کردار ان کے کیریئر کےچند یادگار کرداروں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ماضی کی اداکارہ ناصرہ نے یہودی میجر کی بیوی انجیلا کاکردارکیا، جواپنے شوہر کے ظلم کو دیکھ کرایک موقع پرچیخ پڑتی ہے ۔ مزاحیہ اداکار زلفی مرحوم نے بازی گر کے کردار کو بہ خوبی نبھایا۔ اداکار نومی نے عرب رئیس زادے حارث بن زیاد کے مختصرکردار کو نہایت خوبی سے اداکیا، جسے بچپن سے آنکھ مارنےکی عادت ہوتی ہے۔
ایک موقع پر وہ اپنے لیڈر شعبان لطفی کی جان بچانے کے لیے اپنی جان دے دیتاہےاور مرتے وقت جب آنکھ مارتا ہے، تو اس منظر پر انہیں بے پناہ داد ملی تھی۔ سینئراداکار ساقی نے حریت پسند لیڈر شعبان لطفی کے بچپن کے دوست سنانی کاکردار ادا کیا، جو ایک صحرائی چور کا کردارتھا۔ آخری مناظرمیں اس کا ضمیر جاگ جاتاہے اور وہ وطن کے لیے شہید ہوجاتا ہے۔
اداکار کمال ایرانی نے حبشی غلام بلال کاکردار عمدگی سے اداکیا۔عوامی اداکار علائو الدین نے حریت پسند تنظیم العاصفہ کے سربراہ لیڈر شعبان لطفی کاناقابل فراموش کردار کچھ اس انداز سے کیا کہ آج بھی لوگ شعبان لطفی کونہیں بھلاپائے۔ آغاطالش کاکردار میجرڈیوڈ ۔زرقا شعبان لطفی کے بعد تیسرا اہم کردارتھا، جسے آغاطالش نےاپنی عمدہ کارکردگی سے نہایت چونکا دینے والے اندازمیں پلے کیا۔ فلم کے دیگراداکاروں میں فضل حق، چھم چھم، انور مرزا، سیندو، بختی، الیاس کاشمیری،اسلم پرویز،چائلڈ اسٹار حسن، اعجاز اختر، عارف بیگم اور یوسف خان کےنام بھی شامل تھے۔
فلم کے ڈائریکٹر جوکہ فلم ساز و مصنف بھی تھے۔ ریاض شاہد نے ان تینوں ، ذمےداریوں کونہایت احسن انداز میں انجام دیں۔اگر یہ بات کی جائے کہ ایک انقلابی موضوع پر بننے والی اس فلم نے ریاض شاہد کی سوچ اور نظریہ کونہ صرف جلا بخشی ، بلکہ انہیں ایک اعلیٰ ہدایت کار کا تعارف بھی دیا۔
فوٹوگرافر نبی احمد نے کیمرے ورک کو ہدایت کار کی سوچ سے ہم آہنگی دینے میں بہت ہی ذہانت کا ثبوب دیا۔ فلم کی کہانی اور ان کے پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے آرٹ ڈائریکٹر حبیب شاہ کے کام کی تعریف ہر دیکھنے والی آنکھ نے کی۔ اس فلم میں نیلو کاایک ڈریس اس وقت بے حد مقبول ہوا تھا، جب پورے ملک میں اس کی نمائش جاری تھی۔ اس ڈریس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین نے زرقا ڈریس کےنام سے ان کی خریداری کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
ریاض شاہد اورنیلو کے باےمیں یہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگاکہ اگر ریاض شاہد کی زندگی میں نیلو قدم نہ رکھتی تو وہ زرقا جیسی عظیم فلم کبھی تخلیق نہ کرسکتے، کیوں کہ حسین و ذہانت جب ایک دوسرے سے یکجا ہوجائیں اور دونوں شریک سفر بھی ہوں تو منزل تک پہنچنا آسان ہوجاتاہے۔ ریاض شاہد کاذہن اور نیلو کا حُسن یکجا ہوا تو’’زرقا‘‘ جیسی بلاک بسٹر فلم بنی ۔