پاکستانی فلمی دُنیا کے عہدساز اداکار ندیم کو آج 55برس گزر جانے کے بعد بھی وہی مقبولیت اور مقام حاصل ہے، جو انہیں ابتدا سے تھا۔ اسکول و کالج کے زمانے سے ہی اُنہیں گائیکی کا بےحد شوق تھا اور اپنے اسی شوق کی تکمیل وہ کالج کے فنکشنز کے علاوہ دیگر نجی تقاریب میں بھی کیا کرتے تھے۔ چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کی شادی جو سلمیٰ مراد سے17 ستمبر1964ء کو کراچی میں ہوئی تھی، تو اُس شادی کے ایک میوزیکل پروگرام میں ندیم نے اپنی خُوب صورت گائیکی سے لوگوں کو محظوظ کیا۔
شاید ہی کبھی ندیم نے یہ گمان کیا ہو یا سوچا ہو کہ وہ اک دِن اس فلمی دُنیا کے باقاعدہ گلوکار یا اداکار بن جائیں گے، مگر ایسا ہوا اور ندیم فلموں کے سپر اسٹار بنے۔ نامور موسیقار نثار بزمی نے ان کی آواز سے متاثر ہو کر اُنہیں کراچی کی اک نامکمل فلم ’’سہرا‘‘ میں پس پردہ گلوکاری کا موقع دیا اور اس فلم کے لیے ان سے مسرور انور کا تحریر کردہ یہ گانا گوایا۔
’’بہت یاد آئیں گے وہ دن، تمہیں تڑپائیں گے
وہ دن صنم تیری قسم، بہت یاد آئیں گے‘‘
اپنے شوقِ گائیکی کو مزید جِلا دینے اور اس کی بھرپور تکمیل ندیم کو ڈھاکا لے گئی۔ اُس وقت تک وہ اپنے اصل نام مرزا ندیم بیگ ہی سے موسوم تھے۔ ڈھاکا میں بھی انہوں نے زیادہ تر نجی محافل و تقاریب میں گائیکی پیش کی اور وہ اس وقت محمد رفیع، مکیش کے گائے نغمات گایا کرتے تھے۔ مصدقہ اطلاعات کے بعد ندیم کو پس پردہ گلوکاری کا موقع ڈھاکا میں موسیقار الطاف محمود نے فلم ’’کیسے کہوں‘‘ میں دیا۔ فلم ’’کیسے کہوں‘‘ میں اپنے گائے ہوئے دو گانے کے بول ’’کیسے کہوں میں جاناں او جاناں‘‘ یہ دو گانا انہوں نے فردوسی بیگم کے ساتھ گایا تھا اور فلم میں اداکار سہیل اور شبنم پہ فلمایا گیا تھا، مگر اس دو گانے کا ریکارڈ ہنوز دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی فلم ’’کیسے کہوں‘‘ دستیاب ہے، مگر ندیم اس دوگانے کو اپنا پہلا فلمی گانا قرار دیتے ہیں۔
ناقدین فلم کے نزدیک یہ ایک متنازع گانا ہے، جس کی کوئی ریکارڈنگ دستیاب نہیں۔ ’’کیسے کہوں‘‘ کے بعد ندیم نے اگلا گانا بھی دوگانے کی صورت میں فردوسی بیگم کے ساتھ گایا۔ سولہ ستمبر1966ء کی فلم ’’بے گانہ‘‘ میں موسیقار روبن گھوش نے ندیم سے یہ دوگانا گوایا:
’’میں تجھ سے محبت کرتا ہوں
آ، آ، آ سو جان سے تم پہ مرتا ہوں‘‘
فلم ’’بےگانہ‘‘ کے بعد نذیر بیگ پہلی بار پردہ سیمیں پر بہ طور اداکار ہدایت کار احتشام کی فلم ’’چکوری‘‘ میں ندیم کے فلمی نام سے متعارف ہوئے۔ یہ فلم مغربی پاکستان (حالیہ پاکستان) سے پہلے ڈھاکا (سابقہ مشرقی پاکستان) میں 22؍مارچ 1967ء کو عیدالاضحی کے موقع پر ریلیز کی گئی۔ ندیم جو فلمی صنعت میں گلوکار بننے آئے تھے۔ اس فلم میں ہیرو آئے اور اس طرح فلمی صنعت کو ایک بہت بڑا فن کار میسر آیا۔ ’’چکوری‘‘ کراچی سرکٹ میں 19؍مئی 1967ء کو سابقہ مرکزی سینما ’’پیراڈائز‘‘ کی زینت بنی۔ جہاں پورے 20 ہفتے زیر نمائش رہی اور مجموعی طور پر کراچی میں81 ہفتے زیر نمائش رہ کر پلاٹینم جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ موسیقار روبن گھوش نے چکوری میں ندیم سےایک گانا فردوسی بیگم کے ساتھ گوایا، جسے اختر یوسف نے تحریر کیا۔ یہ گانا بے حد مقبول ہوا۔
’’کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں یہ بہاریں ، یہ سماں‘‘فلم میں یہ گانا اداکار ندیم اوراداکارہ شبانہ پہ فلمایا گیا۔ ’’چکوری‘‘ کے بعد ندیم نے ڈھاکا ہی کی فلم ’’قلی‘‘ میں موسیقار علی حسین کی بنائی طرز پہ سرور بارہ بنکوی کا لکھا یہ دل کش گانا گایا جو ندیم پہ فلمایا گیا۔’’میرے حبیب تم ہو میرا نصیب تم ہو
آنکھوں سے دُور رہ کر دل سے قریب تم ہو‘‘۔ فلم ’’قلی‘‘ 19جولائی 1968ء کو کراچی کے سابقہ مرکزی سینما پلازہ پہ ریلیز ہوئی۔ 31ہفتے نمائش پذیر رہ کر شان دار سلور جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ اس فلم کے بعد ندیم نے ڈھاکا ہی کی فلم ’’اناڑی‘‘ میں موسیقار علی حسین کی بنائی دُھن پر نغمہ نگار اختر یوسف کا یہ سولو دلکش گیت گایا جو ان ہی پرفلمایا گیا۔
’’لکھے پڑھے ہوتے اگر تو تم کو خط لکھتے،
اُس خط میں تمہیں ہم کیا کیا لکھنے کے بہانے لکھتے، کچھ خوب اَدھورے لکھتے، کچھ گیت سہانے لکھتے‘‘
’’اناڑی‘‘ پندرہ اگست 1969ء کو کراچی کے’’ بمبینو‘‘ سینما کی زینت بنی، جہاں اس نے کل 5 ہفتے اور مجموعی طور پر اپنی نمائش کے 17 ہفتے مکمل کیے اور ناکام شمار کی گئی۔ ڈھاکا کی مذکورہ فلموں کے بعد ندیم نے حالیہ پاکستان کی جس پہلی فلم میں پس پردہ گلوکاری کی، وہ ہدایت کار شوکت ہاشمی کی فلم ’’جلے نہ کیوں پروانہ ہے‘‘جو26 جون 1970ء کو کراچی کے سابقہ مرکزی سینما ’’کوہ نور‘‘ میں ریلیز ہوئی۔ جہاں اس نے 5 ہفتے اور مجموعی طور پر 26 ہفتے زیر نمائش رہ کر سلور جوبلی سنائی۔ اس فلم میں موسیقار ناشاد نے ندیم سے تسلیم فاضلی کا تحریر کردہ یہ مقبول گانا گوایا: ’’محبتوں کے قدرداں نہ شہر میں نہ گائوں میں
حقیقتوں کے راز داں نہ شہر میں گائوں میں‘‘۔ یہ اثرانگیز گانا فلم میں ندیم پر فلمایا گیا تھا۔ اگلی فلم فلم ساز و ہدایت کار شباب کیرانوی کی فلم ’’من کی جیت‘‘ میں ندیم نے اپنی آواز کا جادو شباب کیرانوی کے لکھے ہوئے اور موسیقار ایم اشرف کے کمپوز کردہ اس اس گانے میں نہایت عمدگی سے گایا جو ان ہی پر فلمایا گیا:
’’تمہیں کیوں نہ چاہیں، تمہیں کیوں نہ پوجیں‘‘۔ ’’من کی جیت ‘‘ یکم دسمبر1972ء کوکراچی کے مین سینما ’’جوبلی‘‘پہ ریلیز ہوئی، جہاں اب جوبلی مارکیٹ بنی ہوئی ہے۔ جوبلی پر اس فلم نے سات ہفتے مکمل کیے اور مجموعی طور پر اس سرکٹ میں 29 ہفتے زیرنمائش رہ کر اس رومانی ، نغماتی فلم نے سلور جوبلی منائی۔
’’من کی جیت‘‘ کے بعد ندیم نے فلم ساز محمد قوی خان و ہدایت کار ایس ٹی زیدی اور موسیقار کمال احمد کی فلم ’’مسٹر بُدھو‘‘ کے لیے نغمہ سراہی کی۔ انہوں نے نغمہ نگار ریاض الرحمٰن ساغر کے ان دوگانوں میں احمد رشدی اور مالا کے ساتھ اپنی آواز شامل کی۔
’’زندہ ہوں کتنے اشک پیئے ہیں ۔’’ کتنے اشک پیئے ہیں پھر بھی پیاسا ہوں‘‘۔ دونوں گانوں میں ندیم کی آواز اداکار قوی خان پر فلمائی گئی۔ ’’مسٹر بدھو‘‘ 9؍جنوری1973ء کو کراچی کے سابقہ مرکزی سینما ’’ریوالی‘‘ پر ریلیز ہوئی۔ ٹائٹل کردار اداکار رنگیلا نے ادا کیا تھا۔ اس فلم کے بعد ندیم نے ہدایت کا ر سید سلیمان کی نغماتی، رومانوی و معاشرتی فلم ’’سوسائٹی‘‘ میں موسیقار ایم اشرف کی بنائی طرز پر خواجہ پرویز کا یہ دل کش دو گانا نیرہ نور کے ساتھ گایا، جو فلم میں ندیم اور شبنم پہ فلم بند ہوا۔
او میرے سجناں میں موج ہوں دریا کی، تو میرا کنارا ہے۔ سوسائٹی 28 اکتوبر 1973ء عیدالفطر پر کراچی کے مرکزی سینما ’’اوڈین‘‘ پر ریلیز ہوئی، یہاں اس نے 9 ہفتے 5 دن مکمل کیے اور مجموعی طور پر اس سرکٹ میں 48 ہفتے نمائش پذیر رہ کر شاندار سلور جوبلی منائی۔ ’’بجائو بجائو میرے سنگ تالی‘‘ اپنے دورکا مقبول ترین گانا جو گلی گلی گونجا۔ ندیم کی آواز سے آراستہ، ہدایت کار رزاق کی فلم ’’دو بدن‘‘ میں یہ ہٹ سپر گانا۔ ’’اور حسین بھی ہوں گے لیکن میری بات نرالی، دل کو تھام کے رہ گیا‘‘ جس نے ایک نظر ڈالی، بجائو بجائو میرے سنگ تالی‘‘ میں ندیم کےساتھ احمد رشدی اور نیرہ نور بھی تھیں۔ رنگیلا پراحمد رشدی کی آواز، شبنم پر نیرہ نور کی اور ندیم کی آواز خود ندیم پر ہے۔
’’دوبدن‘‘ 5 جنوری 1974ء بروز عیدالاضحی کراچی کے سینما ’’پیراڈائز‘‘ پہ لگی۔ یہاں یہ فلم 9 ہفتے اور 6 دن تک دیکھی گئی اور سرکٹ میں 37 ہفتے نمائش پذیر رہ کر سلور جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ اسی سال 1974ء میں ندیم کا گایا ایک اور سپر گانا ہدایت کار اسلم ڈار کی پلاٹینم جوبلی ہٹ فلم ’’دل لگی‘‘ میں موسیقار ماسٹر رفیق مغل نے گوایا۔ خواجہ پرویز کے لکھے اس گانے میں ندیم کا ساتھ ریاض ملک، البیلا اور ساتھیوں نے ادا کیا۔ ’’پیار کرنا تو کوئی جرم نہیں ہے یارو، میرا محبوب زمانے سے حسین ہے یارو‘‘۔’’دل لگی‘‘ 15 فروری 1974ء کو ’’ریوالی‘‘ کی زینت بنی۔ یہاں اس نے سولو سلور جوبلی کے ساتھ 26 ہفتے اور کل نمائش کے شان دار 84 ہفتے مکمل کیے۔ ’’دل لگی‘‘ کےبعد ندیم کی عمدہ گائیکی سے آراستہ اگلی فلم’’ بہ طور فلمساز ندیم کی پہلی فلم’’مٹی کے پتلے‘‘ تھی، جسے اُن کے سسر احتشام نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ ندیم نے اس فلم میں شاعر اختر یوسف کا تحریر کردہ سولو گانا ایم اشرف کی بنائی دُھن پر گایا اور ان ہی پر فلمایا گیا:
’’نادان تھے ہم جو آپ کی باتوں میں آگئے‘‘۔
یہ فلم ایک سیمی آرٹ فلم تھی، جو 22؍ فروری 1974ء کو کراچی کے سابقہ مرکزی سینما ’’لیرک‘‘ پہ لگی۔ تین ہفتے یہاں لوگوں نے اسے دیکھا اور سلور جوبلی سے قبل ہی کل 20 ہفتے کرکے سرکٹ سے اُتر گئی۔ بہرحال ندیم کا مذکورہ گانا شائقین موسیقی نے بڑا پسند کیا۔ ’’مٹی کے پتلے‘‘ کے بعد ندیم ہدایت کار اقبال اختر کی گولڈن جوبلی ہٹ فلم ’’پھول میرے گلشن کا‘‘ میں کچھ اس ادا سے نغمہ سرا ہوئے:’’ڈھولک پہ جب تھاپ پڑے گی،دِھنک دِھنک میرے یار کہ زمانہ سنگ ناچلے گا‘‘،ایسا کروں گا دھوم دھڑکا، چھیڑ کے من کے تار کہ زمانہ سنگ ناچے گا۔ایم اشرف کی دل چھولینے والی دُھن اور مسرور انور کے خُوب صورت بولوں کی ادائیگی ندیم نے بڑی عمدگی سے کی اور اسے بے حد پسند کیا گیا۔ یہ فلم 12 جولائی 1974ء کو کراچی میں ’’لیرک‘‘ کی زینت بنی اور یہاں اس نے18 ہفتے اور نمائش کے کل 62 ہفتے مکمل کیے۔
فلم ساز شمیم آراء، ہدایت کار سید سلیمان اور روبن گھوش کی گولڈن جوبلی ہٹ فلم ’’پھول‘‘ میں ندیم نے خواجہ پرویز کے لکھے ان نغمات کو بڑے رچائو کے ساتھ گایا اور یہ نغمات بے حد پسند بھی کیے گئے۔٭۔ اوطعنہ تیرا طعنہ (ہمراہ مالا بیگم)٭۔ جہاں کہیں اور جس گلشن میں کوئی کلی مسکائے۔ ٭ ہوں اُداس غم کی بانہوں میں، ڈھلے رات غم کی چھائوں میں۔ ’’پھول‘‘ یکم نومبر1974ء کو کراچی کے سابقہ مرکزی سینما ’’اوڈین‘‘ کی زینت بنی۔ اس فلم کے بعد ندیم نے پس پردہ آواز کا جادو ہدایت کار خالد خورشید کی فلم ’’اُمنگ‘‘ کے اس عمدہ سولو گانے میں جگایا، جسے تسلیم فاضلی نے لکھا:٭۔ نجریا وجریا ملائی لے، محبت وحبت بھی ہو جائے گی۔’’اُمنگ‘‘28 نومبر1975ء کو ’’بمبینو‘‘ پہ ریلیز ہوئی۔
’’اُمنگ‘‘ کے بعد ندیم نے کم و بیش تیرہ سالوں کے بعد اپنی پہلی ذاتی پنجابی فلم ’’مکھڑا‘‘ کے لیے ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ یہ دل کش دو گانا گایا، جو آج بھی سماعتوں میں رس گھولتا ہے:’’منڈیا دوپٹہ چھڈ میرا، نی گوری اے گلابی رنگ تیرا‘‘ یہ گیت ’’مکھڑا‘‘ کا ہائی لائٹ دو گانا ثابت ہوا۔ اس دوگانے کو ندیم نے بڑی چاہت اور دل جمعی سے گایا تھا۔ ’’مکھڑا‘‘ دو ستمبر1988ء کو کراچی کے لیرک کی زینت بنی۔ یہاں یہ 6 ہفتے دیکھی گئی اور مجموعی طور پہ 26 ہفتے نمائش پذیر رہ کر سلور جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ اس گانے کو خواجہ پرویز نے تحریر کیا تھا۔ اس فلم کے ڈائریکٹر اقبال کاشمیری تھے، جو کچھ دن قبل وفات پا گئے۔
ندیم کی گائیکی سے آراستہ تادم تحریر آخری فلم ’’خزانہ‘‘ تھی، جو 17 مارچ 1995ء کو کراچی کے مرکزی سینما ’’نشیمن‘‘ پر ریلیز ہوئی۔ حسن عسکری کی ہدایات سے سجی اس فلم میں ندیم نے وجاہت عطرے کی بنائی دھن پر ریاض الرحمٰن ساغر کا یہ گیت انتہائی خوب صورتی سے گایا اور اُن ہی پہ فلمایا گیا:
’’ بابل کا انگنا، بہاروں کے جھولے نہ میں تجھ کو بھولوں نہ تو مجھ کو بھولے‘‘۔ اسی فلم سے گلوکارہ شبنم مجید کی پس پردہ گلوکاری کا آغاز ہوا اور انہوں نے بھی یہی گیت گایا :مذکورہ بالا فلمی نغمات کے علاوہ ندیم نے تم میرے ہو، آنگن اور چوروں کی بارات کی کہانی کے تناظر میں تحت للفظ ادائیگی بھی بالترتیب ان نغمات ’’ندیا بہتی جائے وادی ہو یا پربت ہو‘‘ نے آغاز سے قبل ’’آنگن‘‘ میں ٹائٹل ختم ہونے کے بعد اشعار کی ادائیگی اور چوروں کی بارات کے کورس لکھے’’پیسے کی یہ دنیا ہے پیارے‘‘ اور میں چور تو چور چوروں کا ہے یہ جہاں کے درمیان کہیں کہیں تحت للفظ میں ندیم کی ادائیگی ہے۔