• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں تو کب کا زندگی کے ہاتھوں کھایا جا چکا ہوں۔ زندگی کسی چٹورے کی طرح چٹخارے لےلے کر مجھے نگل رہی ہے اور میں یہ منظر دیکھ دیکھ لطف اندوز ہو رہا ہوں کہ اور کوئی چوائس یا آپشن ہی نہیں۔نجانے اس کرۂ ارضی و آبی پر یہ کھیل کب سے جاری ہے۔ جینا مرنا، بننا بگڑنا، کھلنا مرجھانا، طلوع اور پھر غروب ہونا، سمندروں کا صحرائوں میں تبدیل ہونا اور اپنے اپنے عہد کی عظیم سولائزیشنز کے نام و نشان تک مٹ جانا جیسے لازوال سرزمین سقارہ (SAQQARA) میسویوٹیمیا کا ماری (MARI)، ہمارا عظیم قدیم ہڑپہ (HARAPPA)، حضرت ابراہم کا شہر ولادت اُر (UR)، لفظی علامات کا مائسینی (MYCENAE)، مصر کا امرنا (AMARNA)، حتی سلطنت کا ہتوساس (HATTUSAS)، بخت نصر کا بابل (BABYLON)، سمندری تہذیب والا کارتھیج (CARTHAGE)، ہولناک صحرا میں ابدی نیند سویا مقدس شہر ہیڑا(HATRA) جسے الحضر بھی کہتے ہیں، ان کا قبائل کی فتح کا نشان چنچن (CHANCHAN) اور دیگر لاتعداد ایسی تہذیبیں جنہیں ہم جانتے ہیں، جنہیں ہم مستقبل قریب یا بعید میں جان سکتے ہیں اور بے شمار وہ تہذیبیں جنہیں ہم کبھی نہ جان سکیں گے کہ انسان کے جاننے کی ایک حد ہوتی ہے جس کے بعد صرف فنا کی تہذیب اور سناٹا ہی باقی رہ جاتا ہے، اک ایسا سناٹا جس سے سکوت مرگ بھی سہم جائے۔تہذیبوں کے ساتھ ساتھ پہلو بہ پہلو فرعونوں کی گمشدگی کا بھی اک طویل سلسلہ ہے۔ کیسے کیسے خاندان بے نام و نشان ہوگئے اور اس طرح کہ اگر آج کوئی ان سے کسی نسبت کا اظہار کرے تو لوگ بیزار ہو جاتے ہیں یا دل ہی دل میں اس پہ رحم کھانے یا مسکرانے لگتے ہیں۔ آج کی کنفیوژڈ، کانپتی لرزتی سپر پاور کے باپ جارج واشنگٹن نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ کبھی کوئی ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس کی امانت کا امین ہوگا۔ اتنی دور کیا جانا خود ہمارے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کو اگر کوئی غیبی اشارہ بتا دیتا کہ 73،74 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے آپ کا ملک دو لخت ہو چکا ہوگا اور اس کی73 سالہ عمر کا تقریباً آدھا حصہ دو خاندان کامیابی سے ہڑپ کرنے کے بعد ایک بار پھر قبضہ کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہوں گے تو قائد کیا محسوس کرتے؟کیا سوچتے؟کیا یہ مخلوق واقعی اشرف ہے یا بے شک انسان خسارے میں ہے۔ گزشتہ 100 سال میں دنیا کی جتنی دولت تباہ کن خود کش ہتھیاروں پر اس اشرف المخلوقات نے خرچ کی، اس سے آدھی بھی بنی نوع انسان کی بہتری بھلائی پر خرچ کر دی جاتی تو کیا دنیا میں بھوک باقی رہ جاتی؟پہلی جنگ عظیم کی ’’لیگ آف نیشنز‘‘ دوسری جنگ عظیم نہ روک سکی تو اس اشرف المخلوقات نے اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی یعنی UN انسان کی اجتماعی عقل اور تجربہ کا شہکار ہے جسے کشمیر تا فلسطین نہ کوئی زخم دکھائی دے نہ کوئی چیخ سنائی دے۔ ’’عالمی گائوں‘‘ کے مکھیا کے اشاروں پر رقص کرتی رقاصہ کے پیروں میں بندھے گھنگھرئوں میں ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بندھے ہوئے ہیں۔انفرادی اور اجتماعی طور پر اقتصادیات ہی اس اشرف المخلوقات کی پہلی اور آخری ترجیح ہے۔ گمشدہ تہذیبوں کی ڈرائونی تاریخ بھی اس کی ترجیحات تبدیل نہیں کرسکی تو کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ یہ اشرف المخلوقات نہیں بلکہ ابھی اشرف المخلوقات بننے کے ابتدائی مراحل میں ہے؟کہتے ہیں خالق و مالک و رازق نے اس کرۂ ارضی و آبی پر ہر انسان کی NEED کے لئے سب کچھ وافر مہیا کر رکھا ہے لیکن دوسری طرف یہ پورے کا پورا کرۂ ارضی و آبی صرف ایک آدمی کی GREED کے لئے بھی بہت کم ہے۔ذہانت کی انتہا یہ کہ زمین پر رینگتے رینگتے چاند اور مریخ تک تو پہنچ گئے لیکن حماقت کی انتہا بھی ملاحظہ ہو کہ زمین ..... یہ کرۂ ارضی و آبی ہر حوالہ، ہر اعتبار سے آج بدترین صورت حال سے دو چار ہے، اس کی کوئی شے اپنے ٹھکانے پر نہیں۔ اس کی ہوائوں سے لے کر پانیوں تک میں زہر گھل چکا ہے۔یہ سائنس اور ٹیکنالوجی بہت رنگین ہے تو اتنی ہی سنگین بھی ہے، یہ جتنی مسحور کن ہے اتنی ہی تباہ کن بھی ہو سکتی ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کھربx کھربx کھربوںx کھربوں پائونڈز اور ڈالرز کے جن ہتھیاروں کے انباروں کی گنتی ممکن نہیں، کیا یہ سب کے سب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یونہی ’’سوئے‘‘ رہیں گے؟اشرف المخلوقات کے بنائے ہوئے یہ بے شمار آتش فشاں کبھی ’’جاگ‘‘ اٹھےتو کیا ہوگا؟’’لیگ آف نیشنز‘‘ دوسری جنگ عظیم نہ روک سکی تو کیا یہ ’’یونائیٹڈ نیشنز‘‘ تیسری جنگ عظیم روک سکتی ہے۔ یا زندگی .... زندگی کے ہاتھوں ہی کھائی جائےگی۔صرف ایک ہی صورت دکھائی دیتی ہےوکھرے وکھرے ہون توں پہلاںآ ہس لیئے رون توں پہلاںہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچھڑنے پر ماتم کرنے اور رونے سے پہلے آئو کچھ دیر کے لئے مل کے ہنس لیں۔بے شک انسان خسارہ میں ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین