• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
آپ ایک دن میں کسی شخص یا مسئلے کی تفہیم حاصل نہیں کرسکتے، اپنا وقت نکالیں، معاملات کا کھوج لگائیں، واپس جائیں۔"You wonʼt achieve understanding of a person or an issue in a day. Take your time, dig, go back."انویسٹی گیٹیو جرنلزم واقعی جان جوکھوں کا کام ہے، اور باب ووڈ ورڈ عالمی سطح پر اس کا معتبر حوالہ ہیں۔ دی امریکن اکیڈمی آف اچیومنٹس کو دیے گئے ایک انٹرویو سے معلوم ہوتا ہے کہ باب ووڈ ورڈ کو یہ مقام پانے کے لئے اپنے آپ کو صحافت کی کئی کڑی آزمائشوں سے گزارنا پڑا۔اس کالم کا مقصد باب ووڈ ورڈ کے نظریات یا صحافتی پالیسیوں کی ستائش مقصود نہیں بلکہ ان کی بعض اہم تصانیف سے اپنے ریڈرز کو روشناس کرنا ہے جن کا مطالعہ اہم بین الاقوامی سیاسی اور خارجہ امور کی تہہ تک پہنچنے اور موجود دنیا کے بڑے فیصلے کرنے والی سپریم طاقت کے عالی دماغوں تک پہنچنے میں رسائی ملتی ہے _۔واشنگٹن پوسٹ کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہونے والے اس صحافی نے جب صحافتی کریر کے شروع میں سترہ سٹوریز بھیجی تھیں تو کہا جاتا ہے کہ ایک بھی شائع نہیں کی گئی تھی مگر ان کی تحقیقاتی صحافت کی سعی مسلسل بالآخر رنگ لائی اور پھر ایسا وقت بھی آیا کہ ان کی نیوز سٹوریز اخبار کے صفحہ اول پر چھپنے لگیں، اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ اسی باب ووڈ ورڈ کا بریک کیا گیا واٹر گیٹ سکینڈل امریکی صدر رچرڈ نکسن کی حکومت کے خاتمے کا باعث بن گیا اور اس نے صحافت کی طاقت کا لوہا منوا لیا۔ تحقیقی صحافی کے علاوہ باب کو وائٹ ہاؤس کا مستند وقائع نگار مانا جاتا ہے کہ کم و بیش 20 کتب صدارتی ادوار پر لکھیں _۔قومی رپورٹنگ کا پلوزر ایوارڈ، Pulitzer Prize for National Reporting کے اعزازات پانے والے باب ووڈ ورڈ کی زندگی مسلسل محنت کی کہانی سے عبارت ہے _ ۔ ووڈوارڈ اور برنسٹائن کی تفتیش پر مبنی ایک تصنیف، آل دی پریزیڈنٹ مینAll the The President’s Men,قومی سطح پر بیسٹ سیلر کتاب بن گئی اور ٹائم میگزین نے اس تصنیف کو تاریخ میں صحافت کا شاید سب سے زیادہ اثر انگیز پیس قرار دیا۔ نکسن انتظامیہ کے خاتمے سے متعلق "فائنل ڈیز" The Final Days ووڈورڈ اور برنسٹین کی ایک دوسری کتاب بھی ایک بہت بڑی کامیابی تھی _ حیرت انگیز طور پر مستقل طور پر ووڈورڈ نے امریکی زندگی کے چھپے ہوئے پہلوؤں پر بیچنے والی کتابیں تیار کیں۔ان کے آج کے کاموں میں دی بریدرن، ان سائیڈ دی سپریم کورٹ، دی مین ہو ووڈ بی پریزیڈنٹ، دی سیکرٹ ویز آف دی سی آئی اے اور بے شمار دیگر تہلکہ خیز تصنیفات شامل ہیں _ انہوں نے صدر جارج ڈبلیو بش کے افغانستان اور عراق میں جنگوںپر بھی چار کتابیں لکھی ہیں: بش ایٹ وار، پلان آف اٹیک، اسٹیٹ آف ڈینیل اور دی وار ود ان _ انہوں نے صدارتی قیادت اور اوباما وارز میں خارجہ پالیسی کی کہانی بھی لکھی (2010)۔ ووڈورڈ کی 2012 کی کتاب "دی پرائس آف پالیٹکس" صدر اوباما اور کانگریسی رہنماؤں کی 2008 کے مالی بحران کے بعد امریکی معیشت کی بحالی کے لئے کی جانے والی کوششوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ باب ووڈورڈ نے اپنی تصنیف "Fear" / خوف سے اپنے کیریئر کی سب سے بڑی اشاعت کی کامیابی حاصل کی ہو جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں ہنگاموں کی اندرونی کہانی ہے۔ ستمبر 2018 میں شائع شدہ یہ کتاب فوری بکنے والی کتاب کی حیثیت اختیار کر گئی جس کی پہلے دن ہی 900،000 کاپیاں فروخت ہوئی تھیں اور پہلے ہفتے میں 1.1 ملین کتب فروخت ہوئیں _ اس کے ناشر سائمن اینڈ شسٹر کی تاریخ میں سب سے تیزی سے فروخت ہونے والی کتاب کا اعزاز حاصل کیا اس نے نیویارک ٹائمز کی فروخت ہونے والی کتب کی فہرست میں فوری طور پر سرفہرست مقام حاصل کر لیا اور اشاعت کے آٹھ دن کے اندر ہی اس کی دسویں جلد چھپائی جارہی تھی۔ڈونلڈٹرمپ کو اس سال کے اوائل میں ہی (جنوری) آگاہ کیا جاتا ہے کہ کرونا پینڈیمک کی شکل میں قومی سلامتی اور ان کی صدارت کے لیے نہایت خطرہ پیدا ہو گا اور یہ وائرس 1918 کے سپینش فلو کی سطح پر پہنچ سکتا ہے جو 675,000 امریکننز کی اموات کا باعث بنا تھا _ اور آج ان کی کتاب Rage / شدید غصہ/ اشتعال کا ہر سو شہرہ ہے۔ اس معرکہ خیز کتاب میں باب ووڈ ورڈ جہاں اور کئی چونکا خیز انکشافات کرتے ہیں وہ امریکی صدر ٹرمپ سے کورونا وباکی سنگینی پر پردہ ڈالنے کا اعتراف کرالیتے ہیں جس سے امریکی سیاست میں ایک ہل چل مچ گئی _ جولائی میں دوران انٹرویو ٹرمپ باب ووڈ ورڈ سے کہتے ہیں کہ وہ کرونا پینڈیمک اور معاشی بحران پر پریشان نہ ہوں وہ (ٹرمپ) اس پر قابو پالیں گے _اور یہ بھی کہا کہ ہم مزید ایک اور کتاب بھی لکھیں گے اور تم یہ دیکھو گے کہ میں درست کہتا تھا۔ _ اب صدر نے اس کتاب کو اپنے آپ پر سیاسی حملہ کے مترادف قرار دیا ہے _ کتاب کے اقتباسات کے مطابق صدر نے ماہ فروری میں باب ووڈ ورڈ کو انٹرویو میں کہا تھا کہ کورونا وائرس سخت ترین فلو سے بھی کافی زیادہ کمپلیکس اور ہلاکت خیز ہے مگر کتاب سے ہٹ کر فاکس نیوز پر صدر عوام کو یہ یقین دلاتے رہے کہ یہ ایک موسمی وائرس ہے جس سے جلد ہی نجات مل جائے گی بلکہ انتخابی مہم کے دوران تو وہ اسے ڈیموکریٹک فلو بھی قرار دیتے رہے اور کتاب کے اقتباسات سامنے آنے کے بعد امریکہ کے عہدہ جلیلہ پر بیٹھے شخص کا کہنا ہے کہ ایسا وہ اس لیے کہتے تھے کہ عوام زیادہ گھبراہٹ، افراتفری اور پریشانی کا شکار نہ ہو جائیں جبکہ امریکی عوام کی ایک ریکارڈ تعداد موت کے منہ میں چلی گئی _ ۔باب ووڈ ورڈ نے اس کتاب میں 7 ماہ کے دوران 17 مرتبہ صدر ٹرمپ کے انٹرویوز کیے ہیں اور بڑی جانکاری کرکے دنیا کی سپریم پاور کے انتہائی متنازع ترین شخص کے دماغ کی کھڑکیوں کے اندر جھانکنے کی عمدہ سعی کی ہے۔ اور کورونا متعلق امریکی صدر کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کو آشکار کیا ہے _مصنف نے 25 ایسے خطوط بھی حاصل کیے جو پہلے منظر عام پر نہیں آئے تھے یہ صدر امریکہ اور لیڈر شمالی کوریا کے مابین اہم خط و کتابت ہے۔ روس کی امریکی الیکشن میں مبینہ سائبر مداخلت اور یوکرائن اور ٹرمپ کے مواخذہ کے اہم موضوعات بھی شامل ہیں _ کتاب کا بین السطور مطالعہ یہ دلچسپ صورتحال بھی اجاگر کرتا ہے کہ صدر ٹرمپ جہاں کئی معاملات پر ہمیں غیر ذمہ دار یا لاابالی شخص دکھائی دیتے ہیں وہاں وہ دنیا کے بعض خطوں سے اپنی افواج کی واپسی کے خواں ہیں _ بلا مبالغہ دنیا کو کسی نئی جنگ میں نہ دھکیلنے کا وصف بھی صدر ٹرمپ کا خاصا ہے _ جو امریکی صحافیوں، اسٹیبلشمنٹ یا سیاسی کے لیے کتنا ہی ناپسندیدہ فعل کیوں نہ ہو ہمارے لیے یہ ایک خوش آئند سوچ ہے اور امید کی جانی چاہئے کہ نئے امریکی صدر بھی اس متعلق ٹرمپ کی سوچوں کو آگے بڑھائیں گے ۔ 
تازہ ترین